میرے خیال میں اس بات پر اب پوری قوم کا اجماع ہوچکاہے کہ بلوچوں اور پشتونوں کا مشترکہ صوبہ’’بلوچستان‘‘ پسماندگی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ خواندگی کی شرح اگر صوبہ پنجاب ،سندھ اور خیبرپختونخوا میں بالترتیب اکہتر ، انہتر اورساٹھ فیصد ہے تو بلوچستان میں یہ شرح مشکل سے اڑتالیس فیصد تک پہنچ رہی ہے ۔ بے روزگاری کا گویا ٹھکانہ بلوچستان ہی میں ہے اور صحت کے بنیادی وسائل کی اتنی قلت ہے کہ صوبائی دارالحکومت کے مرکزی اسپتالوں میں بھی مریض کا بروقت اور تسلی بخش علاج تقریبا ناممکن ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتیں اس صوبے کی پسماندگی کے خاتمے کے دعوے ہردور میں تھوک کے حساب سے کرتی آئی ہیں لیکن عملی اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے میں یہ شرمناک حد تک ناکام رہی ہیں۔ اس کی زندہ مثال موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے جس سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے چند مطالبات بھی حل نہیں ہوپائے جس سے نتیجے میںدل برداشتہ اخترمینگل کو کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ مرکز میں بلوچستان کے حصے کی نوکریوںکے اوپربھی دوسرے صوبوں کے افراد دھڑا دھڑ تعینات ہورہے ہیں۔ ان لوگوں نے بلوچستان کے کوٹے پر وفاق میں ملازمتیں حاصل کرنے اور سکالر شپ پر بیرون ملک جانے کا عجیب سہل راستہ ڈھونڈا ہے ۔ اپنے مامے اور چاچے کی سفارش اور علاقائی سوداگروں کے ذریعے محض ہزار روپے کے عوض جعلی ڈومیسائل حاصل کرکے مفت میں کوئٹہ، پشین، چمن،ژوب ، بارکھان ، تربت، چاغی اور لورالائی وغیرہ کا باشندہ بن جاتے ہیں۔یاد رہے کہ اس طرح کے جعلی دستاویزات بنانے کا شرمناک دھندہ پچھلے چند برسوں سے نہیں بلکہ دہائیوں سے جاری ہے لیکن بے انصافی کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں۔ تین سال پہلے جے یوآئی کے وفاقی وزیرپوسٹل سروسز مولانا امیرزمان نے اس جعل سازی کے خلاف پارلیمان میں آوازاٹھائی تھی کہ ہم جب بھی اس مسئلے کو آٹھاتے ہیں تو بیوروکریسی اس میں رکاوٹیں ڈال کر ہمارے بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ پچھلی حکومت ہی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینٹ کے فنکشنل کمیٹی برائے منتقلی اختیارات کے چیئرمین سینیٹر میر کبیر محمدشہی نے بھی رونا رویا تھا کہ صوبے کے کوٹے پر وفاقی محکموں اور بے شمار کارپوریشنوں میں جعلی ڈومیسائل پر جعلی سازی اور دھوکہ دہی کے ذریعے نوکریاں حاصل کرنے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے ۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے احتجاج کیاتھا کہ اسلام آباد اور پنجاب کے لوگ کس آئین، قانون کے تحت پشتون بلوچ مشترک صوبے کے کوٹے پر جعلی ڈومیسائل کے ذریعے گریڈ ایک سے لیکر گریڈ اٹھارہ تک نوکریاں حاصل کررہے ہیں ؟ لیکن زبوں حال صوبے کے ان وفاقی وزرا اور سینیٹروں کے ان جائز مطالبات پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ اس وقت نوبت یہاں تک پہنچ آئی ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کی مختصر آبادی کے صوبے میں بائیس ہزار سے زیادہ جعلی ڈومیسائلز جاری ہونے کاانکشاف ہوا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق صرف ایک ہفتے کے دوران صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے کم ازکم بارہ سو، ژوب کے چارسو ، لورالائی کے ایک سوتیس، زیارت کے چوالیس ، جعفرآباد کے نواسی اور ڈیرہ بگٹی کے چھیاسٹھ افراد کے ڈومیسائلز جعلی ثابت ہوئے ہیںجس کا متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے ایک معتمد ایکٹیوسٹ جواد زرکزئی نے ان جعل سازوں کے کچھ ثبوت میڈیا کو فراہم کیے ہیں جواس لاوارث صوبے کے نام پرہائی سکیل کی نوکریاں انجوائے کر رہے ہیں۔ جواد کے مطابق تونسہ شریف سے تعلق رکھنے والے شہبازرسول اور اعجاز رسول دونوں بھائی ہیں جو ضلع موسی خیل کے لوکل ڈومیسائل پر وفاق میں گریڈ اٹھارہ کی آسامیوں پر تعینات ہیں۔ اب جب ان دستاویزات کے نام نہاد تصدیق کا سلسلہ شروع ہواتو موسی خیل کارخ کرکے ان دونوں بھائیوں نے ڈپٹی کمشنر سے خود کو کلیئر کروا کر واپس چلے گئے۔سوال یہ ہے کہ تونسہ شریف (بستی بغلانی )سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں نے آخر کس قانون اور کیسے ضلع موسی خیل کا ڈومیسائل بنوایا اور پھر کس نے کس کے کی سفارش پر ان کو کلیئرنس اور اطمینان دلوا کر واپس بھیج دیا ؟ بلوچستان کے تیس سے زائد اضلاع میں ایک ضلع بھی ایسا نہیں ہے جہاں غیر بلوچستانیوں نے چندہزار روپوں کے بدلے جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ نہیں بنوائے ہوں۔ لطف کی بات یہ بھی ہے کہ شیرانی کے نونہال ضلع میں بھی جعلی ڈومیسائل کے حامل افراد برآمد ہوئے ہیں جہاں ابھی تک حکومتی دفاتربھی فعال نہیں ہوئے ہیں۔یہاں ایک بنیادی نکتہ یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ جعلی طریقوں سے ڈومیسائلز اور لوکلزسرٹیفیکیٹس کے اجرا میں سہولت کاروں کا کردار بلوچستان ہی کے ڈی سیز اور لوکل دلالوں کا رہا ہے جو معمولی مراعات اور چند ہزار رقم کی خاطر اپنے لوگوں کے حقوق پر سودا بازی کرتے آئے ہیں- لہذا سوشل میڈیا کے ایکٹیویسٹس صوبے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والی ان سب اندرونی اور بیرونی کھالی بھیڑوں پر کڑی نظر رکھیں، انہیں ایکسپوز کریں اور ان کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں جب تک نہاد مدنی ریاست کی سرکار اس مسئلے کو سنجیدہ نہ لیں۔