مکرمی ! بدقسمتی سے وفاق اور اسلام آباد میں بیٹھے فیصلہ ساز لوگ کوئٹہ کو ہی صرف بلوچستان سمجھتے ہیں جس کیوجہ سے بلوچستان کے باقی علاقوں میں آج بھی لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں کوئٹہ سے اندرون ملک جانیوالی قومی شاہراہیں رسی کی مانند پھیلی ہوئی ہے ایسا کوئی دو رویہ قومی شاہراہ نہیں جس پرملک کے مختلف علاقوںکیلئے سفرکیاجاسکے بدقسمتی سے ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ ان شاہراہوں پر درجنوں حادثات کے واقعات رونماء نہیں ہوتے ان حادثات کے روک تھام کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی میکنزم نہیں بنایا گیا ہے قومی شاہراہوں پر حادثات کی صورت میں فوری طور پر ریسکیو اور طبی امداد کیلئے کوئی انتظام بھی موجود نہیں حادثہ پیش آنے کے دوران متاثرین گھنٹوں تک بے یارو مددگار متاثرہ جگہ پر پڑے رہتے ہیں اگر لوگ اپنی مدد آپ متاثرین کو قریبی علاقوں کے ہسپتالوں تک پہنچابھی دے تو وہاں پر ڈاکٹرز اور ایمرجنسی کی کوئی سہولت موجود نہیں انسانی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنیوالے ادارے کوئٹہ کے سوا اندرون بلوچستان میں دفتر کی حد تک موجود ہیں چند ایک دفتر اگر فعال بھی ہوتو وہاں پر خادم کے نام پر فرعون بیٹھے ہوتے ہیں ہرطرف جنگل کا قانون نافذ ہیں ان سے پوچھنے والا نہیں۔ حکومت بلوچستان کو چائیے کہ وہ بلوچستان میں فلاح و بہبود کے نام پرقائم اور کام کرنے والے اداروں کو فعال کرے اور بلوچستان کے ہر تحصیل میں بیٹھے ہوئے اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایت جاری کرے کہ وہ صبح 9 بجے سے ہی اپنے دفاترز میں بیٹھ کر عوامی مسائل سنیں اور ان کے حل کیلئے اقدامات اٹھائیںاکثر علاقوں میں اسسٹنٹ کمشنرز اپنے دفاترز میں دن ایک بجے تک بھی بیٹھنے کی زحمت نہیں کرتے تو عوامی مسائل جوں کے توں رہنا ہی ہیں۔ (عمران سمالانی‘ مچھ بلوچستان )