معروف صوفی شاعر بابا بلھے شاہ نے فرمایا ’’بلھے شاہ اسی مرنا نا ہیں، گورپیا کوئی ہور‘‘ اس شعر کی حقیقت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سو فیصد بات درست نظر آتی ہے کہ وہ لوگ جو دوسروں کیلئے زندہ رہتے ہیں مرکر بھی نہیں مرتے، خان پور مدم خیز دھرتی ہے کہ یہاں خواجہ فرید، خلیفہ غلام محمد دین پوری، مولانا عبداللہ درخواستی، خواجہ محمد یار فریدی، خواجہ در محمد کوریجہ، حضرت سراج جیسی شخصیات نے جنم لیا، مولانا عبید اللہ سندھی نے اسی سرزمین کو تحریک آزادی کا مرکز بنایا اور اسی سرزمین پر آسودہ خاک ہیں، یہ زندہ ہیں اپنے کارناموں اور اپنی فکر کے ساتھ۔ اسی زمین کا ایک حوالہ ایک ایسا نوجوان بھی ہے جس نے اپنی زندگی کے مختصر عرصے میں سرائیکی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ صحافت اور تعلیم کے میدان میں بہت خدمات سر انجام دیں، اس کا نام ایوب دھریجہ ہے۔ 15۔اگست کو جواں سال لکھاری ،ادیب اور دانشور ایوب دھریجہ کی برسی دھریجہ نگر میں ادا کی گئی ۔اس موقع پر دھریجہ ادبی اکیڈمی کی طرف سے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ہوا ۔مقررین نے ایوب دھریجہ کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔مقررین نے کہا کہ مرحوم کی دھریجہ ادبی اکیڈمی کے بانی کے حیثیت سے خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔انہوں نے دھریجہ نگر میں ادبی اکیڈمی قائم کی اور شاندار لائبریری کا قیام عمل میں لے آئے ۔انہوں نے ادبی کتابوں کے ساتھ ساتھ نصابی کتابیں اور خلاصے بھی لائبریری کی زینت بنائے اور طالب علموں کی عملی طور پر مدد کی ۔آج جبکہ تعلیم ایک کاروبار بن چکی ہے اور اکیڈمی کے نام پر بہت بڑا بزنس ہورہا ہے مگر ایوب دھریجہ نے رضاکارانہ طور پر علمی خدمات سرانجام دیں ۔ایوب دھریجہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دھریجہ نگر کے بہت سے طالب علموں کو سرائیکی میں ایم اے کرایا جب وہ خود سرائیکی میں ایم اے کررہے تھے تو ان کو احساس ہوا کہ ایم اے سرائیکی سے متعلق کتابیں دستیاب نہیں ،خلاصہ جات نہیں ملتے اور نہ ہی کوئی طالب علموں کی مدد کرنے والا ہے ۔ ان کو اس بات کا بہت احساس تھا کہ یونیورسٹی میں سرائیکی مضامین شروع ہوچکے ہیں مگر طالب علم بہت پریشان ہیں اسی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے دھریجہ ادبی اکیڈمی میں ایم اے سرائیکی سے متعلقہ مضامین اکٹھے کیے اور بہت سے طالب علموں کو وہ سرائیکی پڑھاتے رہے آج دھریجہ نگر پورے وسیب میں واحد بستی ہے جہاں سرائیکی ماسٹر ہولڈرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اس وقت صرف ایک بستی دھریجہ نگر میں 15کے قریب میل فی میل ایم اے سرائیکی ہیں ،یہ سب کچھ ایوب دھریجہ کی کوششوں کے باعث ہوا ۔یہ الگ بات ہے کہ ان 15میں سے کسی ایک کو بھی ملازمت نہیں ملی اور ملازمت نہ ملنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ آگے مشکلات پیدا ہورہی ہیں جسے بھی سرائیکی تعلیم کے بارے میں کہا جائے وہ کہتا ہے کیا پہلے والوں کو ملازمت ملی ہے ؟ بہرحال ایوب دھریجہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ بستی میں گریجویشن کرنیوالوں کی لسٹ بناتے چاہے وہ میل ہوں یا فی میل پھر ان کے گھروں میں جاتے اور ان کو دعوت دیتے کہ آپ ایم اے سرائیکی کا داخلہ بھیجیں ،کتابوں کی مدد دھریجہ ادبی اکیڈمی کریگی اور خدانخواستہ داخلے کا بھی مسئلہ ہوا تو میں اپنی جیب سے داخلہ بھیجوں گا اسی بناء پر لوگوں میں سرائیکی پڑھنے کی تحریک پیدا ہوئی اور آج دھریجہ نگر میں کتنے طالب علموں نے سرائیکی میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ دھریجہ نگر کے علاوہ خان پور ،لیاقت پور کے بہت سے طالب علموں کو انہوں نے سرائیکی تعلیم کی طرف راغب کیا،وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں لیاقت پور بھی آتے جاتے تھے ،انہوں نے لیاقت پور میں بزم اساس کے رکن کی حیثیت سے ادبی خدمات سرانجام دیں اور خان پور میں انہوں نے بزم ادراک کی بنیاد رکھی جس کے پلیٹ فارم سے بہت سی ادبی تقریبات کا انعقاد ہوا ۔ابھی حال ہی میں بزم ادراک کی طرف سے معروف سرائیکی شاعر سئیں قیس فریدی کا سرائیکی مجموعہ کلام’’گھاگھر‘‘کے نام سے شائع ہوا تو بزم ادراک کے صدر پروفیسر منیر ملک نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں جو کچھ ہوں ایوب احمد دھریجہ کی وجہ سے ہوں ،آج بزم ادراک جتنا کام کررہی ہے یہ انہی کا لگا ہوا پیدا ہے ،انہوں نے ہی ہمیں ادب کی دنیا میں چلنا سکھایا ،انہی کے احسانات کا نہ صرف خان پور بلکہ پورا وسیب شکر گزار ہے،وہ سرائیکی پروگراموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔دھریجہ نگر میں جتنے بھی ادبی ،ثقافتی اور سیاسی پروگرام ہوتے ان میں سب سے اہم کردار ایوب دھریجہ کا تھا ،ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہو ںنے دھریجہ پبلک سکول دھریجہ نگر میں اپنے بھانجے پروفیسر نذیر احمد بزمی کے ساتھ ملکر سب سے پہلے سرائیکی تعلیم کا آغاز کیا ،سرائیکی قاعدے پرنٹ کرائے اور ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر ان کو عام کیا۔آج اسی دھریجہ پبلک سکول کے بہت سے طالب علم سرائیکی میں ایم فل کررہے ہیں15 اگست 2013 ء کو ایک صدمے سے ان کی وفات ہوئی۔۔ایوب دھریجہ ایک حساس اور دردِ دل رکھنے والے نوجوان تھے۔وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے،اپنی خدمات اور یادوں کے حوالے سے ۔ اب تھوڑا تذکرہ یوم آزادی کا ہو جائے ،پورے ملک میں یوم آزادی جوش و خروش سے منایا گیا ،دوسرے علاقوں کی طرح راقم الحروف خان پور میں بھی یوم آزادی کی تقریبات منعقد ہوئیں سرائیکی ایکشن کمیٹی اور سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے یوم آزادی ریلی نکالی گئی ،یہ ریلی دھریجہ نگر سے دین پور چوک اور مختلف شاہرات سے ہوتی ہوئی بھٹہ ہائوس ہوائی اڈہ روڈ خان پور پہنچی ۔بھٹہ ہائوس میں یوم آزادی امن کانفرنس منعقد ہوئی ،کانفرنس سے سرائیکی رہنمائوں خواجہ غلام فرید کوریجہ ، راقم الحروف ،راشد عزیز بھٹہ ،انجینئر شاہنواز مشوری ودیگر نے خطاب کیا۔ رہنمائوں نے کہا کہ یوم آزادی کا پیغام یہ ہے کہ ملک کے تمام محروم طبقات کو حقوق دئیے جائیں ،استحصال کا خاتمہ کیا جائے ،غربت ،بے روزگاری اور ناخواندگی ختم کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ وسیب کو حقوق دیئے جائیں ،صوبے کیلئے 100دن کا وعدہ 360دن بعد بھی پورا نہیں ہوا ۔