حکیم مرسلین خان دہلوی بلا شبہ پاکستان کے سب سے ممتاز حکیم ہیں۔ سو برس کے لگ بھگ عمر ہے۔دہلی کے شہرہ آفاق طبیب مسیح الملک محمد اجمل خان دہلوی کے شاگرد ہیں اور نباض ایسے کہ ان کی انگلیوں کا لمس پاتے ہی ڈھیٹ سے ڈھیٹ نبض بھی ٹھیک ٹھیک منزل سنانی شروع کر دیتی ہے۔ یوں تو وہ جملہ امراض انسانی پر مکمل گرفت رکھتے ہیں مگر بالخصوص معدے کے امورپر آپ کی مہارت ایسی کہ کراچی کا ہر خوش خوراک مولوی زندگی کے کسی مطعمی موڑ پر آپ کے مطب کے آس پاس ضروری دیکھا گیا ہے. خوراک کے باب میں مولوی ہیبت اللہ تندوری کا یہ مسلک ہے کہ اللہ کی عبادت کے بعد انسان کی دوسری اہم ترین ذمہ داری اچھی خوراک کی تلاش ہے۔ یہ عظمت انہی کے معدے کو حاصل ہے کہ السر اور گوشت سے بننے والے جملہ اقسام کے کھانے اس گھاٹ پر بقائے باہمی کے اصولوں کا پاس رکھتے ہوئے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ مگر شنید یہی ہے کہ کراچی کا شاید ہی کوئی ریستوران ایسا ہو جس کا کبابی ان کی ہیبت سے تھر تھر نہ کانپتا ہو۔ ڈشز کو سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ مسالوں کی مقدار میں توازن رکھا گیا ہے یا نہیں۔ کہتے ہیں یہ قدرت بس انہی کو حاصل ہے کہ محض چند منٹ کے فرق سے دو بار ڈنر فرما لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی روز کراچی کے دو دو شادیوں کے ولیمی دسترخوانوں پر موجود پائے گئے ہیں۔ان کی یہ کرامت دیکھ کر ایک بار کسی نے انہیں چھیڑ دیا حضرت ! اتنا کیسے تناول فرما لیتے ہیں ؟ جواب ایسا دانے دار دیا کہ انگلی دانتوں تلے دبانے نہیں چبانے کا موقع پیدا کردیا، فرمایا "یہ اس عاجز کا کوئی کمال نہیں، دانے دانے پر مہر ہوتی ہے۔ جب ایک دانے پر آپ کے نام کی مہر لگ چکی تو اسے آپ کے معدے تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا" جملہ سامعین ان کے اس جواب پر بوٹیوں کی جگہ انگلیاں ہی چباتے دیکھے گئے مگر ایک رقیب دانہ جھٹ سے بولے "حضرت ! اس صداقت سے کس کافر کو انکار کہ دانے دانے پر مہر ہوتی ہے۔ مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ مہر تو آپ نے جیب میں رکھی ہے، جہاں دانہ نظر آیا فٹ سے اپنے نام کی مہر لگا لی" ایک روز ان مولوی ہیبت اللہ کستوری کو انوکھی سوجھی۔ وہ حکیم مرسلین خان دہلوی کے نواسے کے ہمراہ سیدھے ان کی خواب گاہ میں جا پہنچے۔ حکیم صاحب فوراََ اٹھ بیٹھے کہ ہو نہ ہو اسلام کو ہی کوئی خطرہ لاحق ہوگا ورنہ سالم مولوی کا ان کی خواب گاہ میں کیا کام ؟ حکیم جی نے قبلہ کستوری صاحب سے اسلام کے چاروں پلروں کی خیریت دریافت کی تو وہ بولے "انہیں کوئی خطرہ نہیں، وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔ آپ بس یہ رہنمائی فرما دیجئے کہ انسان کے لئے آئیڈیل خوراک کیا ہے ؟ اسے کیا کھانا چاہئے اور کیا نہیں ؟" حکیم دہلوی نے فرمایا "امام صاحب ! ایک بکری خرید لیجئے ! جب آپ کوئی چیز کھانے کا قصد فرمائیں تو وہ چیز پہلے کچی اس بکری کے آگے رکھ دیجئے ! اگر بکری کھالے تو آپ بھی پکا کر تناول فرما لیں اور اگر بکری کھانے سے انکار کر دے تو آپ بھی اس چیز سے پرہیز اختیار فرما لیجئے !" یہ سنتے ہی کستوری صاحب نے کرہ ارض کو پلک جھپکتے ایک ایسے صحرا میں تبدیل ہوتے دیکھا جہاں مرغ و ماہی عنقاء اور نباتات کے باغات بے شمار۔ دور دور تک گھاس پھوس اور قریب فقط ایک ایسی بکری جس کا لمبا کان ان کے ہاتھ میں۔ وہ گھر آئے اور کئی دن پریشان رہے۔ سوتے تو جاگنا بھول جاتے اور جاگتے تو سونا یاد نہ رہتا۔ طبیعت ایسی پائی تھی کہ جاوید کی نہاری اور فالودے کے سوا کسی چیز میں جی نہ لگتا، مگر ان دونوں چیزوں کو عالمگیر ٹرسٹ کے صدقے کا وہ بکرا دیکھنا تک گوارا نہ کرتا جو وہ تجرباتی طور پر کرائے پر لائے تھے۔ سنا ہے ان فاقہ کش لیل و نہار میں ایک دن ایسا آیا جب کراچی کے مومن آباد کی پہاڑی پر انہیں طور کا گماں گزرااور وہ مراقبے کے لئے وہاں تشریف لے گئے۔ ان کے مراقبے کا مرکزی سوال یہی تھا کہ اگر دسترخوان بکری کی منشاء کے مطابق سجانا ہے تو خالق نے عبد الخالق کو دم پخت، سجی، نمکین کڑاہی، چکن تکے، نمکین تکے، گولہ کباب، میرٹھی کباب پراٹھے اور پھجے کے سری پائے جیسے ہنر کیوں سکھائے ؟ کہتے ہیں اسی مراقبے کے دوران ان پر ایک کشف ہوا۔ وہ آناً فاناً گھر لوٹ آئے۔ چہرے کی رونق ایسی جیسے دوسری شادی کر کے لوٹے ہوں اور آنکھوں کی چمک ایسی جیسے پہلی منگنی کی بات پکی ہونے پر ہوتی ہے۔ کچھ ہی دنوں میں وزن بڑھنے لگا تو بس بڑھتا ہی چلا گیا۔ اب وہ جیب میں چندے کی رسید رکھ کر روز دس کلو میٹر کی واک بھی کرنے لگے، نتیجے میں صحت ایسی مثالی کہ مسجد میں کھانستے بوڑھے ان پر نظر پڑتے ہی کھانسنا بھول جاتے۔ لوگ حیران کہ امام صاحب کی صحت کا راز کیا اور امام صاحب کہ بتائیں ہی نہیں۔ ایسے میں ایک دن حکیم مرسلین خاں دہلوی کا نواسہ ان کے دروازے پر آ پہنچا اور انہیں اسی طرح نانا جان کے حضور حاضری کا کہا جیسے بھارتی سفیر کو پاکستانی دفتر خارجہ آنے کا کہا جاتا ہے۔ حاضری پر حکیم صاحب نے پوچھا۔ "امام صاحب ! میرا بتایا ہوا نسخہ چائنا کٹنگ کا تھا اور آپ ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں ! یہ ہو کیا رہا ہے ؟" حضرت کستوری کامل اعتماد کے ساتھ بولے "حکیم جی ! آپ کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل ہی کی تو برکت ہے" حکیم دہلوی اپنی عمر بھر کی حکمت سمیت پہلے حیرت کے سمندر میں ڈوبے اور پھر سطح پر ابھرتے ہوئے پوچھا "کیا من و عن میرے بتائے نسخے پر عمل ہو رہا ہے ؟" حضرت کستوری مجتہدانہ شان سے بولے "جی بالکل ! من و عن لیکن صرف ایک چھوٹی سی اجتہادی ترمیم کے ساتھ" قبلہ حکیم دہلوی مزید حیراں "ترمیم ! کیسی ترمیم ؟ "حضور ! کشف و الہام سے یہ ترمیم القا ہوئی کہ اگر کسی جانور کی منشاء کے مطابق ہی دسترخوان سجانا ہے تو بکری ہی کیوں ؟ بلی کیوں نہیں ؟"