مریم نواز شریف نے جوا کھیلا اور اپنے ساتھیوں کے علاوہ قومی میڈیا کو مشکل میں ڈال دیا۔ یہ فیصلہ فرانزک ماہرین کر سکتے ہیں کہ میڈیا کے سامنے پیش کردہ ویڈیو اور آڈیو کی اصلیت کیا ہے؟ آواز جج کی ہے یا ایجادبندہ؟ آواز جج صاحب کی ہے تو اس میں قطع و برید ہوئی؟ مرضی کے ٹوٹے جوڑ کر من پسند گفتگو سامنے لائی گئی یا من و عن پیش کر دی گئی؟ عام آدمی اور حقیقت کے متلاشی میڈیا کے لئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے روبرو جعلی دستاویزات پیش کر کے جعلسازی کے الزام میں سزا یافتہ خاتون کی کہانی پر یقین کرے یا احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی پریس ریلیز کو سچ جانے؟ جج کی شخصیت ‘ کردار اور فیصلے کے بارے میں درست رائے شفاف تحقیقات کے بعد قائم کی جا سکتی ہے ۔ تاحال ان کی شہرت بے داغ ہے لیکن مریم نواز صاحبہ کو عدالت جعلی دستاویزات پیش کرنے کے الزام میں سزا سنا چکی ہے اور جب تک انہیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بری نہیں کرتی ان کی کسی بات پر اعتبار صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو پاکستان کے عدالتی نظام کو مانتا ہے نہ اخلاقیات سے سروکار رکھتا ہے لیکن زیر بحث اس وقت مریم نواز کی ذات نہیں‘ وہ الزام ہے جو مسلم لیگی قیادت نے میاں نواز شریف کومالی کرپشن‘ بے ضابطگی اور اختیارات سے تجاوز کا مرتکب قرار دے کر سزا سنانے والے جج ارشد ملک پر لگایا۔ جج مذکور کی آڈیو ویڈیو ریکارڈ کرنے والا شخص ناصر بٹ پاکستان اور برطانیہ میں مشکوک شہرت کا حامل ہے اور اسلامی و پاکستانی قانون شہادت کے مطابق مشکوک شہرت کے حامل شخص کے پیش کردہ شواہد کو وہ لوگ تو آنکھیں بند کر کے قبول کر سکتے ہیں جن کے دل میں خوف خدا ہے نہ آنکھ میں شرم و حیا مگر کوئی معقول شہری نہیں۔ قتل کے الزام میں مفرور نے موجودہ برطانوی وزیر اعظم ٹریسامے سے جب وہ وزیر داخلہ تھیں ‘ملاقات کی تو برطانوی اخبار نے سرخی جمائی ’’''Killer'' in the home officeناصر بٹ کا موقف اگرچہ یہی ہے کہ راولپنڈی میں دو افراد کے قتل کا الزام غلط ہے اور مخالفین کی کارستانی مگر جب تک کورٹ آف لا میں وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کریں ان کی شخصیت ناقابل اعتبار رہے گی اور ہر فعل مشکوک۔ مریم نواز نے اس آڈیو ویڈیو کا جو پس منظر بیان کیا اس کی تائید گفتگو سے نہیں ہوتی اور جج صاحب نے جس ویڈیو ٹیپ کا ذکر کر کے اپنے بلیک میل ہونے کا تاثر دیا‘ اس کے مندرجات سامنے لائے بغیر یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ مذکورہ ویڈیو ٹیپ مرضی کا فیصلہ لینے کے لئے دکھائی گئی یا جج کو مسلم لیگ(ن) اور شریف خاندان کی بلیک میلنگ‘ دبائو اور کروڑوں روپے کی ترغیب سے بچانے کا اہتمام ہوا۔جج صاحب نے مشکوک ناصر بٹ سے مل کر بہرحال غلطی کی جس کا خمیازہ اب بھگتیں‘ مخبر صادق نے تہمت کی جگہوں سے بچنے کی اسی لئے تاکید کی ہے۔ ویڈیو کے ذریعے بلیک میلنگ کا تذکرہ کرکے بظاہر مریم نواز نے یہ تاثر دیا کہ جج مذکور کا فیصلہ اس کا نتیجہ تھا وگرنہ وہ میاں نواز شریف کو باعزت بری کرتے اور ممکن ہے کہ ریاست کو انہیں اچھی خاصی رقم بطور ہرجانہ ادا کرنے کا پابند بھی کیا جاتا۔ مریم نواز نے یہ تک کہا کہ اس ویڈیو ٹیپ کا مواد اس قابل نہیں کہ کوئی شریف آدمی کھلے عام بیان کر سکے لیکن اگر یہ سچ ہے اور جج مذکور کو واقعی کہیںبلا کر یہ ویڈیو دکھائی گئی تو جہاں یہ امکان موجود ہے کہ اس میں جج صاحب کی ذاتی زندگی کا کوئی خفیہ پہلو دکھایا گیا ہو‘ وہاں یہ بھی تو ممکن ہے کہ انہیں ناصر بٹ یا کسی دوسرے مشکوک شخص سے ملاقات‘ رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکیوں کے حوالے سے ریکارڈڈ ثبوت دکھا کر آگاہ کیا گیا ہو کہ آپ کسی ترغیب اور دبائو کا شکارنہ ہوں ‘ بے خوف و خطرمیرٹ پر فیصلہ کریں اور ماضی میں ریاست‘ قانون اورعدلیہ کو یرغمال بنا کر مرضی کے فیصلے اور نتائج حاصل کرنے والے گروہ سے گھبرائیںنہ اپنے ضمیر‘ قانون اور دستیاب شواہد سے روگردانی کریں ۔پانامہ کیس کئی ماہ تک سپریم کورٹ میں چلا‘ عدالت عظمیٰ کے حکم پر جے آئی ٹی نے میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ مریم نواز ‘ حسین نواز‘ حسن نواز سمیت شریف خاندان کے کئی افراد خانہ کو طلب کر کے بیرون ملک جائیدادوں کی منی ٹریل مانگی‘ مگر ایک مشکوک قطری خط کے سوا شریف خاندان کی زنبیل سے کچھ نہ نکلا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے سامنے بھی شریف خاندان کوئی ثبوت پیش کر سکا نہ ڈھنگ کا گواہ۔ یہی حال جج ارشد ملک کے روبرو ‘زیر مقدمے کا رہا اس کے برعکس نیب نے احتساب عدالتوں اور جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں دستاویزات کے ڈھیر لگا دیے۔ درجنوں گواہ پیش ہوئے اور وزارت اعلیٰ و عظمیٰ کے دوران اختیارات سے تجاوز‘بے ضابطگی‘ سرمائے کی بیرون ملک غیر قانونی منتقلی اور آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات کو مدلل انداز میں ثابت کیا گیا۔ ایسی صورت میں استغاثہ کو جج پر دبائو ڈالنے اور بلیک میل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ رشوت‘ دبائو اور بلیک میل کا حربہ ہمیشہ وہ فریق آزماتا ہے جس کے پاس کوئی ثبوت ہو نہ دلیل۔ شریف خاندان کواپریٹو کیس میں جج سے مرضی کا فیصلہ لے کر اسے سینٹ کا رکن بنا چکا ہے۔ سجاد علی شاہ سے مرضی کا فیصلہ نہ ملنے پر برادر ججوں کو ترغیب اور دبائو کے حربوں سے متاثر کرنے عدالت عظمیٰ پر حملے کی کہانی سب کو معلوم ہے۔ جسٹس ملک محمد قیوم اور میاں شہباز شریف و سیف الرحمن کی آڈیو ٹیپ سے کون واقف نہیں‘ جبکہ دیگر اداروں کی طرح عدلیہ میں بھی شریف خاندان کی سرمایہ کاری نصف صدی کا قصہ ہے‘ دو چار برس کی بات نہیں۔ میاں نواز شریف کے خلاف پہلا فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے دیا‘ دوسرا جسٹس اعجاز افضل‘ جسٹس اعجاز الا حسن اور جسٹس عظمت سعید نے‘ ان سب ججوں کی شہرت وہ نہیں جو شریف خاندان کی ہے‘ تیسرا فیصلہ جسٹس بشیر اور چوتھا جسٹس ارشد ملک نے دیا۔ شریف خاندان تیس سال سے اقتدار میں ہے اور عدلیہ میں کام کرنے والے ججوں کی شخصیت و کردار سے واقف ‘اگر ان میں سے کسی ایک جج کی شہرت جسٹس قیوم جیسی ہوتی تو دوران سماعت یا بعداز فیصلہ شریف خاندان ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ الاپنے کے بجائے خود ‘اپنے میڈیا سیل اور صحافتی کارندوںکے ذریعے وہ گند اچھالتا کہ خدا کی پناہ۔ سوفیصد حقیقت تو شفاف تحقیقات اور فرانزک آڈٹ کے ذریعے سامنے آ سکتی ہے لیکن ماضی کے تجربات‘ واقعاتی شہادتوں اور شریف خاندان کے خلاف مقدمات کی نوعیت سے مریم نواز کی کہانی ہی جھوٹی اور جج ارشد ملک کی پریس ریلیز درست نظر آتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب مریم نواز نے جوا کھلا‘ عسکری اداروں‘ عدلیہ اور حکومت کوبیک فٹ پر لانے کی سعی کی اور میڈیا میں موجود اپنے خیر خواہوں‘ مداحوں اور فوج و عدلیہ سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی مدد سے عدالتی فیصلہ پامال کرنا چاہا مگر یہ تدبیر الٹی پڑتی نظر آ رہی ہے ریاست کا کوئی ادارہ بلیک میل تو خیر کیا ہوتا’ احتساب کے عمل میں مزید تیزی آنے اور سیاستدانوں کے ساتھ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کو بھی’’ ایں ہم شتر بچہ است‘‘ کہہ کر بے لاگ احتساب کے دائرے میں لانے کا امکان بڑھ گیا ہے ریاستی اداروں میں روز بروز یہ احساس شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے اور ٹیکسوں کی ہر سطح پر وصولی کے عمل میں صرف سیاستدان ‘ تاجر‘ صنعت کار اور بیورو کریٹس ہی رکاوٹ نہیں ڈال رہے بلکہ مفاد یافتہ قلمی کارندے بھی پیش پیش ہیں لٹیرے‘ کرپٹ‘ منشیات فروش‘ ٹیکس چور‘ قرض خور اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے مافیا کو جمہوریت کا علمبردار اور سقراط وحسین حلاج کا ہم پلّہ قرار دے کر ریاست و ریاستی اداروں سے مجرمانہ سلوک کا مقصد آخر کیا ہے؟ یہ مشکل فیصلہ تھا لیکن مریم نواز نے آسان کر دیا ‘آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟