حکومت پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ کام کرنے کے بجائے کام کی تشہیر زیادہ کی جاتی ہے۔ دنیا نے صدیوں کے تجربے کے بعد یہ اصول وضع کیا ہے کہ کام خاموشی سے کیا جاتا ہے۔ ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا۔ قومی ایئر لائن کے سربراہ نے مشیر خزانہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد مشیر خزانہ نے ضروری سمجھا کہ وزارت خزانہ کی طرف سے ایک باقاعدہ ‘ رسمی‘ پریس ریلیز جاری کیا جائے۔ صرف یہ بتانے کے لئے کہ قومی ایئر لائن کے سربراہ نے مشیر صاحب کو بریفنگ دی ہے اور بتایا ہے کہ ایئر لائن کس طرح لاگت کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ! آپ کا کیا خیال ہے کہ ایمیریٹ، سنگا پور ایئر لائن اور اتحاد ایئر لائن کے سربراہ بھی اپنے اپنے ملک کے وزیر خزانہ کے دروازے پر دستک دیتے ہوں گے؟ نہیں! کیونکہ یہ ایئر لائنیں نفع کما رہی ہیں۔ اپنے پائوں پر کھڑی ہیں۔ سفید ہاتھی نہیں ہیں اور ہر آئے دن حکومت کی طرف سے مالی امداد نہیں مانگ رہی ہوتیں! یہ بھی سوچیے کہ ایئر لائن کے سربراہ نے اگر مشیر خزانہ کے ساتھ میٹنگ ‘ مشیر خزانہ کے دفتر میں کی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ مشیر خزانہ کے پاس خزانہ ہے! مطلب واضح ہے ! فنڈز کی ضرورت ہے!! اس ملاقات کے ضمن میں باقاعدہ پریس ریلیز جاری کیا گیا۔ بس ایسے ہی کام ہیں حکومت پاکستان کے! کھایا پیا کچھ نہیں! گلاس توڑنے کے بارہ آنے! کارپوریٹ دنیا کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو بدترین اور عبرت ناک باب اس میں ہماری قومی ایئر لائن کا ہو گا! آسمان پر تھی! زمین پر گری تو یوں کہ گرتی ہی جا رہی ہے! تنزل ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ فی جہاز ملازمین کی تعداد اتنی ہے جتنی دنیا میں کم ہی کسی ایئر لائن کی ہو گی۔ پی آئی اے کے سربراہ کے مطابق ایک ہزارزائد ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ زائد(سرپلس) ملازمین کی کل تعداد کتنی ہے؟ اور یہ ایک ہزار جو برطرف کیے گئے کب فارغ کئے گئے اور کتنے عرصہ کے دوران؟ کیا ان سب کو بعداز ریٹائرمنٹ سہولیات ملتی رہیں گی؟ آج اگر ایمیریٹ‘ اتحاد اور دوسری ایئر لائنیں دنیا کے ہوائی اڈوں پر راج کر رہی ہیں تو اس کی واحد وجہ’’میرٹ‘‘ ہے۔ ہماری ایئر لائن کی ایک بدقسمتی یہ رہی کہ ہر حکومت نے سیاسی بنیادوں پر نااہل افراد کو تنخواہ اور مراعات کے لالچ میں ایئر لائن میں کھپایا سالہا سال تک بھرتی پچھلے دروازے سے ہوتی رہی۔ مدتوں اشتہارات کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوئی۔ ایئر لائن کو گدھ کی طرح نوچا جاتا رہا۔ ہر سیاسی پارٹی نے اسے اپنا پلیٹ فارم بنایا۔ اسلامیان پاکستان بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ یہ نااہل‘ سفارشی افراد مفت سفرکرتے رہے تنخواہیں لیتے رہے۔ مراعات اور سہولیات سے خوب خوب لطف اندوز ہوتے رہے مگر ایئر لائن زبوں حالی کے گڑھے میں گرتی گئی۔ دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ یونینیں کرگسوں کی طرح اس کا گوشت کھا رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ منگل کے دن قومی ایئر لائن کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی! کیا انہیں یونینوں کی چیرہ دستی اور زائد ملازمین کی کل تعداد کے بارے میں بتایا گیا؟ اگست 2016ء میں اس وقت کے قومی ایئر لائن کے سربراہ اعظم سہگل نے بی بی سی اردو سروس کو ایک انٹرویو دیا تھا۔ جو پاکستانی میڈیا نے چھاپا تھا اور غالباً نشر بھی کیا تھا۔ لازم ہے کہ وزیر اعظم کو یہ انٹرویو پیش کیا جائے۔ قومی ایئر لائن کے سربراہ کا کہنا تھا۔ ’’ائر لائن کی انتظامیہ کے پاس کوئی کنٹرول نہیں۔ یہ بے بس ہے۔ ایک لحاظ سے یہ کہنا درست ہے کہ پی آئی اے انتظامیہ یونینوں کے ہاتھ میں یرغمال ہے۔ اس کی بڑی مثال ملازمین کی تعداد اور جہازوں کے درمیان میں نسبت تناسب ہے۔ جہاز صرف چودہ یا پندرہ ہیں اور چودہ ہزار مستقل ملازمین ہیں جب کہ ڈیلی مزدوری کی بنیاد پر چار ہزارمزید ہیں ۔ ضرورت صرف چار ہزار افراد کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایئر لائن انتظامیہ کس قدر بے بس ہے۔ ملازمین کے چنائو اور برطرفی کا انتظامیہ کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ احتساب نہ ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ یونینیں اور تنظیمیں بہت بااثر ہیں۔ تفتیش کے بعد کسی معاملے میں عملی اقدام اٹھانا بہت مشکل ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ آج تین سال بعد صورت حال میں کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر 2016ء میں زائد ملازمین کی تعداد چودہ ہزار تھی تو کیا صرف ایک ہزار مفت خوروں سے جان چھڑانے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ یونینوں کی تعداد کتنی ہے؟ اورکیا آج انتظامیہ ان کے چنگل سے آزاد ہے یا بدستور یرغمال ہے؟ وزیر اعظم کو چاہیے کہ ان سوالوں کے صاف صاف جواب مانگیں اور پھر دونوں قسم کے پسوئوں سے اس گائے کو نجات دلوائیں۔ کہنے کو ایمیریٹ بھی یو اے ای حکومت کی ملکیت ہے مگر حکومت اس کے کام میں ہرگز دخل نہیں دے سکتی۔ اسے ایک نجی کمپنی کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ بادشاہ یا کسی شہزادے کے حکم یا سفارش پر کوئی ایک شخص بھی ملازمت نہیں حاصل کر سکتا۔ ایمیریٹ کے پاس ایک سو نو ایئر بسیں ہیں اور ایک سو اکاون بوئنگ ! یہ اعداد و شمار اسی سال کی ضروری کے ہیں۔ ایک ہفتے میں تین ہزار چھ سو پروازیں ہیں۔ دنیا کے اسی ملکوں کے ایک سو پچاس شہروں میں ایمیریٹ کے جہاز آ جا رہے ہیں۔ دنیا کی طویل ترین نان سٹاپ پروازکا سہرا بھی ایمیریٹ کے سر ہے۔ دبئی سے نیوزی لینڈ کے دارالحکومت آک لینڈ تک تقریباً سترہ گھنٹے کی مسلسل پرواز کا کریڈٹ اسی کمپنی کے جہازوں کو ملا ہے۔ 2015ء میں ایمیریٹ نے چوبیس ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔ پچھلے سال کی نسبت یہ تقریباً آٹھ فیصد زیادہ تھی اسی ایک سال میں مسافروں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ سے بڑھ کر چار کروڑ بانوے لاکھ یعنی تقریباً پانچ کروڑ ہو گی۔ پاکستان حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اگر قومی ائر لائن کے پاس صرف ایک جہاز رہ جائے تب بھی ملازمین کی تعداد ہزاروں ہی میں رہے گی اس لئے کہ یونین بازی کے سامنے حکومت بے بس ہے۔ حکومت آج تک کوئی کمپنی نہیں بنا سکی جو نجی شعبے کے اصولوں کے مطابق اس بیمار ایر لائن کو درست سمت دکھا سکے۔ چودہ ہزار ملازمین کے علاوہ شہری ہوا بازی کی ایک باقاعدہ اور الگ وزارت بھی ہے۔ یہ ایک الگ بوجھ ہے جو خزانے پر پڑھ رہا ہے ایک وفاقی وزیر پھر وفاقی سیکرٹری۔ پھر ایڈیشنل سیکرٹری۔ پھر نیچے افسروں اور اہلکاروں کی پوری بٹالین… اور جہازوں کی تعداد ناقابل بیان حد تک شرم ناک!!ستم ظریفی دیکھیے کہ ایمیریٹ کے تعارف میں باقاعدہ ذکر ہے کہ 1980ء میں جب ایمیریٹ وجودمیں آئی تو اس وقت یہ پی آئی اے تھی جس نے دو جہاز ایمیریٹ کو دیے۔ ایمیریٹ کی افرادی قوت کو تربیت بھی پی آئی اے نے اپنی اکیڈمی میں فراہم کی تھی! کوئی مانے یا نہ مانے کسی کی پیشانی پر شکنیں ابھریں یا ستارے چمکیں‘ پاکستان کی قومی ائر لائن کے لئے راہ نجات صرف اور صرف اس کی نجکاری ہے۔ صرف نجی شعبہ ہی اس ائر لائن کو ہزاروں زائد ملازمین کے نوکیلے دانتوں اور درجنوں بدقماش یونینوں کے خون آشام پنجوں سے رہائی دلوا سکتا ہے! اس کے ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین رعایتی قیمت پر دنیا بھرمیں سفر کر رہے ہیں۔ کئی سیکٹر اس کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ آپ ملک کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ ائر انڈیا کی ایک پرواز ہر روز سڈنی سے اور ایک ہر روز میلبورن سے بھارت آتی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پی آئی اے بنکاک کا سیکٹر بھی دوسری ائر لائنوں کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر چکا ہے افرادی قوت کی بین الاقوامی منڈی میں پاکستان کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے(اور یہ اس کالم نگار کو ایمیریٹ کے ایک ذمہ دار عہدیدار نے بتایا) کہ ایمیریٹ کی ٹیم‘ افرادی قوت حاصل کرنے کے لئے سال میں کئی بار بھارت کے مختلف شہروں میں جاتی ہے مگر پاکستان کبھی نہیں آئی۔ صرف وہ پاکستانی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو دبئی میں موجود ہیں یا جن کے پاس غیر ملکی شہریت ہے۔ آپ یہ بھی اطمینان رکھیے کہ اس افسوسناک صورت حال سے شہری ہوابازی کا وزیر اور وفاقی سیکرٹری دونوں بے خبر ہوں گے؟ کیا اس لاغر اور نحیف ایئر لائن کو‘ جس کے گردے اور پھیپھڑے ناکارہ ہو چکے ہیں‘ نجی شعبے میں منتقل کیا جائے گا؟ شاید کبھی نہیں! مکروہ مفادات ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہزاروں زائد ملازمین‘ درجنوں یونینیں!سرکاری حکام! کوئی ایک رکاوٹ ہو تو بیان کی جائے۔ سو باتوں کی ایک بات ع منیرؔاس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟