ڈالر کے مقابلے میں روپے کی انٹر بینک شرح تبادلہ 149.25روپے تک جا پہنچی ہے جبکہ کھلی مارکیٹ میں ایک ڈالر 151میں فروخت ہوتا رہا۔ حکومت کی طرف سے کرنسی ڈیلروں سے ملاقات‘ آئی ایم ایف سے معاہدہ‘ سرمایہ کاروں کے لئے رعائتوں اور ٹیکس امور میں آسانیوں کے اعلان کے باوجود ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے مالیاتی پالیسی کا اعلان کل بروز سوموار متوقع ہے۔ روپے کی قدر میں اس وقت سے کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جب سے حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ سے بیل آئوٹ پیکیج کے لئے مذاکرات کا آغاز کیا۔ گزشتہ ہفتے پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے سٹاف لیول وفد کے درمیان6ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج پر اتفاق ہونے کے بعد امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کے نرخ کم ہوں گے تاہم جونہی معاہدہ پر اتفاق کی خبر آئی ڈالر کی قدر میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بین الاقوامی کرنسیوں میں ڈالر کو امریکی طاقت و استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تجارت کے لئے زیادہ تر ممالک ڈالر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں درآمدات کا بل ادا کرنے کے لئے ڈالر میں ادائیگی کی جاتی ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کی برآمدات کا حجم درآمدات کی نسبت کم ہے۔2107ء میں پاکستانی برآمدات 24.8ارب ڈالر تھیں جبکہ درآمدات 55.6ارب ڈالر تک جا پہنچی تھیں۔ پاکستان امریکہ کو ساڑھے تین ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ جرمنی کو 1.9ارب ڈالر‘ چین کو 1.85ارب ڈالر‘ برطانیہ کو 1.46ارب ڈالر اور افغانستان کو 1.39ارب ڈالر کی برآمدات کی جاتی ہیں۔ سیدھا سا مطلب ہے کہ ان ممالک کے ساتھ اگر پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ آتا ہے تو برآمدی آرڈر کم ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف درآمدات ہیں۔ ماہ اپریل 2019ء میں پاکستان کی درآمدات 4.8ارب ڈالر کی ہوئیں۔ گزشتہ برس اپریل میں پاکستانی درآمدات4.2ارب ڈال تھیں۔ درآمدی بل میں مسلسل اضافہ روپے کی قدر کو دبائو میں لاتا ہے۔ درآمد کنندگان بیرونی ادائیگیوں کے لئے جب سرکاری بنک سے ڈالر حاصل نہیں کر پاتے تو وہ کھلی مارکیٹ میں کرنسی ڈیلرں سے رجوع کرتے ہیں۔ کھلی مارکیٹ میں طلب و رسد کا اصول کام کرتا ہے۔ جونہی طلب گار بڑھتے ہیں شے کے نرخ میں اضافہ ہونے لگتاہے۔ اس موقع پر یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ حکومت ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے ڈالر کا کاروبار کرنے والوں سے بات کرے اور ان سے تمام ڈالر لے کر سرکاری بنک کے حوالے کرے۔ بیرونی ادائیگی کرنے والوں کو ایک ہی جگہ جب ڈالر ملے گا تو طلب کے دبائو کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی میں بدنیتی شامل نہیں ہوسکے گی۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں ہم نے سٹیٹ بنک کی خودمختاری کی جو شرط تسلیم کی ہے اس سے یہ بھی مطلب اخذ کیا جا رہا ہے کہ حکومت ڈالر کو قدر کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا نہیںکرے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے چار روز قبل ایک کمیٹی قائم کی ہے۔ اس کمیٹی کا کام روپے کی قدر میں کمی کو اور ملک سے سرمایے کی پرواز کوروکنا ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ ہیں۔ کمیٹی اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ بیرون ملک سفر کے خواہاں افراد کو دس ہزارڈالر ساتھ لے جانے کی بجائے رقم کو کم کرکے تین ہزارڈالر تک کر دیا جائے۔ کرنسی ڈیلر ایسوسی ایشن کا وفد وزیر اعظم سے ملاقات میں بتا چکا ہے کہ ملک میں ڈالر کی قلت نہیں صرف انتظامی لحاظ سے پالیسی کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ پچھلے 23برسوں کے دوران پاکستان میں 160ارب ڈالر آئے جبکہ ملک کا مجموعی قرضہ 100ارب ڈالر کے قریب ہے۔ بعض رپورٹس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نقد سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کے زیادہ تر واقعات پشاور اورکوئٹہ ایئر پورٹس سے ہو رہے ہیں جہاں نگرانی اورروک ٹوک کا انتظامی عمل ناقص ہے۔ سرمائے کی غیر قانونی طورپر بیرون ملک منتقلی کی ایک بڑی وجہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ جب افغان ٹرانزٹ ٹریڈ شروع ہوئی تو ہمسایہ ملک میںایسا کوئی بنک نہیں تھا جو اس تجارت میں معاونت فراہم کرتا۔ اس وقت افغان تاجر کرنسی پاکستان لاتے اور یہاں کے بنکوں میں جمع کراتے۔ مگر اب وہاں بنک کھلنے کے بعد تاجر افغانستان میں ہی کرنسی جمع کراتے ہیں۔ یہ لوگ دوبئی اور یورپی ممالک میں رقوم بھیجتے ہیں۔ ماہرین کی رائے میں اس نظام کو درست کرنے سے کم از کم سالانہ دو ارب ڈالر مقامی مارکیٹ میں آ سکتے ہیں۔ روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کا ایک طریقہ ایسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنا ہے جو پاکستان میں مقامی سطح پر تیار ہوتی ہیں۔ اس تجویز پرعمل کی صورت میں سالانہ 5سے 10ارب ڈالر تک درآمدی بل کم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں متعدد بار دوسرے تجارتی شراکت داروں سے بارٹر سسٹم یا دونوں ملکوں کی مقامی کرنسی میں ادائیگیوں کی تجویز زیر غور رہی ہے۔ دو سال قبل اس سلسلے میں چین سے بات چیت کا آغاز کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر پاک چین تجارت کو مقامی کرنسی میں کرنے پر مشاورت کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے اگر اس معاملے میں قابل ذکر پیشرفت ہوتی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ 20فیصد تجارت کو ڈالر کی قید سے آزاد کرا لیا جائے گا۔ پاکستان نے بین الاقومی تبدیلیوں کو سامنے رکھ کرکبھی بوقت فیصلے نہیں کئے دنیا بھر کے ممالک نے 2013ء میں اپنی کرنسی کو ڈالر کے مقابل نئی سطح پر لانے کے اقدامات کر لیے تھے مگر پاکستان نے ایسا نہ کر کے حالیہ بحران کا سامنا کیا۔حکومت کی کوششوں میں شک نہیں تاہم اگر کوئی مخصوص افراد یا گروہ اس بحران کے پس پشت ہیں تو ان کی گرفت ضروری ہے۔