امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتے ویڈیو لنک کے ذریعے ملاقات کی ہے۔ منفرد نوعیت کی یہ ملاقات واشنگٹن کے وقت کے مطابق پیر کو دیر سے جبکہ بیجنگ میں منگل کو دِن کے اوقات میں ہوئی اور ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی۔ جنوری 2021 ء میں بائیڈن کے بطور صدر منتخب ہونے کے بعد سے یہ دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلی سربراہی ملاقات تھی (اگرچہ ورچوئل تھی)۔ COVID-19 پابندیوں کی وجہ سے دونوں رہنماؤں کے مابین اِس سے پہلے کوئی ملاقات نہیں ہو سکی۔ یہ میٹنگ دنیا کی توجہ کا مرکز اِس لیے تھی کہ آیا اِس میٹنگ سے دو بڑے اقتصادی اور سیاسی حریفوں کے درمیان تعاون کی راہ ہموار ہوتی ہے یا یہ تصادم کو ہوا دیتی ہے۔ اِس ورچوئل میٹنگ کا مقصد دو بڑے معاشی اور سیاسی حریفوں کے درمیان بڑھتے ہوئے غیر مستحکم تعلقات میں اِستحکام لانا تھا۔ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان متنازع مسائل میں تائیوان، موسمیاتی تبدیلی اور بحیرہ جنوبی چین میں نیویگیشن سے لے کر ہائپرسونک میزائلوں، خلا میں تسلط، سائبر اسپیس، جوہری عدم پھیلاؤ، تجارت اور انسانی حقوق خصوصاً سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں تک شامل ہیں۔ تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ورچوئل میٹنگ کے دوران تائیوان پر تناؤ غالب رہا اور دونوں رہنماؤں نے تائیوان پر تنبیہات کا تبادلہ کیا۔ جو اور شی اِس ملاقات سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟ اور اس ورچوئل سمٹ کے کیا نتائج نکلے ہیں؟ صدر بائیڈن تائیوان پر چین کے بڑھتے ہوئے فوجی دباؤ کے پس منظر میں آبنائے تائیوان میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے صدر شی سے یقین دہانی چاہتے تھے اور صدر شی کو یہ بھی باور کرانا چاہتے تھے کہ امریکی انتظامیہ کی چین کی حکمت عملی دو طرفہ تعلقات کے لیے ایک مستحکم فریم ورک ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب صدر شی جن پنگ کے لیے تائیوان ایک اہم تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ ’ون چائنا پالیسی‘ کا لازمی جزو ہے جِس کے مطابق چین تائیوان کو اپنا ایک باغی صوبہ سمجھتا ہے جسے چین کے ساتھ دوبارہ ملایا جا سکتا ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔ سی این این کے اینکر اینڈرسن کوپر کے ایک سوال پر کہ کیا چین کے حملے کی صورت میں امریکہ تائیوان کے دفاع کے لیے آئے گا، بائیڈن نے جواب دیا،"ہاں، ہم ایسا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔" تاہم، یہ بیان تائیوان کے معاملے پر امریکی خارجہ پالیسی کے طویل عرصے سے اِختیار کیے گئے موقف سے انحراف کو ظاہر کرتا ہے۔ چین کو اس حوالے سے وضاحت کی ضرورت تھی اور ورچوئل میٹنگ سے یہ ممکن ہو سکتا تھا۔ورچوئل ملاقات کے نتائج کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چینی میڈیا اور وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ملاقات خوش اسلوبی سے شروع ہوئی اور دوستانہ رہی۔ تاہم اس کا خاتمہ درپردہ دھمکیوں کے ساتھ ہوا۔ چینی صدر شی نے امریکی صدر بائیڈن کو متنبہ کیا ہے کہ تائیوان کی آزادی کی حوصلہ افزائی کرنا ’’آگ سے کھیلنا‘‘ ہوگا۔ "امریکہ میں کچھ لوگ چین کو کنٹرول کرنے کے لیے تائیوان کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ رجحان بہت خطرناک ہے اور آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور جو لوگ آگ سے کھیلیں گے وہ جل جائیں گے"۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، صدر بائیڈن نے تائیوان کے بارے میں اس بات پر زور دیا کہ ریاستہائے متحدہ سٹیٹس کو میں تبدیل لانے یا آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کی یکطرفہ کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جبکہ امریکہ کی دیرینہ پالیسی میں اَیسی کسی تبدیلی کا اِرادہ نہیں کیا جو تائیوان کی آزادی کو تسلیم کرتی ہو البتہ تائیوان کے دفاع کی حمایت کرتی ہے۔امریکہ، چین پر سنکیانگ میں رہنے والے مسلم اقلیتی گروپ اوغور مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام لگا تا ہے۔ چین نے ہانگ کانگ میں سیاسی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ جس طرح سے سلوک کیا ہے اس پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بڑھ گیا ہے۔ تاہم، بائیڈن نے کہا کہ "چین اور ریاستہائے متحدہ کے رہنماوں کے طور پر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے ممالک کے درمیان مقابلہ،تنازعہ کی طرف نہ جائے،چاہے وہ ارادی ہو یا غیر ارادی"۔سربراہی اجلاس میں تجارت،انسانی حقوق،اور سلامتی سے لے کر تائیوان کے مسئلے تک ہر اِیشو پر گفتگو ہوئی ہے لیکن کچھ بھی حل نہیں ہوا۔ملاقات میں صرف آگے بڑھنے کے لیے باہمی روابط کے اصولوں پر تفصیل سے بحث ہوئی ہے۔ اِس ورچوئل سمٹ کے خالص نتائج کا جائزہ لینے کے لیے اَقوامِ عالم کو مزید کچھ عرصہ انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، چین،امریکہ کے باہمی تعلقات کے اِستحکام کے بارے میں پر امید رہنا چاہیے، حالانکہ اِنہیں ایک بَل کھاتی ہوئی اور دشوار گزار سڑک پر آگے بڑھنا ہے۔ اس سلسلے میں سرمائی اولمپکس کے امریکی سفارتی بائیکاٹ کے امکان کے بارے میں بائیڈن کے بیان کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ صدر بائیڈن نے 19 نومبر کو کہا ہے کہ امریکہ بیجنگ میں 4 فروری2022 سے شروع ہونے والے سرمائی اولمپکس گیمز کا بائیکاٹ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ سفارتی بائیکاٹ کا مطلب ہے کہ کوئی بھی امریکی سفارتی اہلکار گیمز میں شرکت نہیں کرے گا۔ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں پارٹیوں کے قانون سازوں نے چینی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر سفارتی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ مسٹر بائیڈن کا یہ تبصرہ اس وقت آیا جب وہ میکسیکو کے صدر لوپیز اوبراڈور اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی وائٹ ہاؤس میں باضابطہ بات چیت کے لیے میزبانی کر رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیان امریکی اور چینی صدور کے درمیان ہونے والی ورچوئل میٹنگ کے صرف دو دن بعد آیا ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے مابین ماضی کی سرد جنگ کی طرح، امریکہ اور چین کے درمیان ممکنہ سرد جنگ اپنی اِبتدائی شکل میں رونما ہورہی ہے اور اِن کے لیے اِس سے بچنا مشکل ہے۔