جھگڑے کس گھر میں نہیں ہوتے؟اختلاف کس خاندان میں نہیں؟ تضادات ہر معاشرے میںموجود ہواکرتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم گھر کے جھگڑے گلی میں لے آئیں۔ خاندان کا اختلاف جب شہر کا ایشو بن جاتا ہے تب بہت برا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح جب ہماری ملکی سیاست کے تضادات عالمی سطح کے اشتہار بن جاتے ہیں تب کرنے والوں کو نقصان کم اور ملک کی بدنامی زیادہ ہوتی ہے۔ آج کل وطن عزیز کے حوالے سے جو کچھ ہورہا ہے اس پر صرف دشمن ہی خوشی محسوس کرسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست جس طرح عالمی سطح پر تصادم کا پوسٹر بن گئی ہے اس سے وہ لوگ بہت دکھی ہیں جو ہر بات پر صبر کرتے ہیں۔جو بیرون ملک بستے ہوئے ہر عمل کرتے سمے اس بات کا بیحد خیال رکھتے ہیں کہ کہیںان کی وجہ سے ان کا ملک بدنام نہ ہو۔ میرے خیال ؛میں اس سے بڑی حب الوطنی اور کوئی نہیں ہو سکتی جب آپ ملکی وقار کے خاطر اپنا نقصان برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ محبت اگر صبر کا نام نہیں تو کیا محبت جبر کا نام ہے؟ اور پس ماندہ اقوام کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ وہ جبر تو برداشت کرلیتی ہیں مگر ان کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوتے دیر نہیں لگتی۔ جبر میں تو قومیں مجبور ہوتی ہیں۔مگر صبر میں انسان کے پاس اختیار ہوتا ہے۔ جب ہمارے پاس اختیار ہے کہ ہم اپنے ملکی مسائل کو مہذب انداز سے حل کریں۔ جب ہم یہ کر سکتے ہیں کہ آپس میں بیٹھ کر اختلافات کو طے کریں تو پھر ایک دوسرے سے دست گریباںہونے کی ضرورت کیا ہے؟ ہم دنیا کے سامنے تماشہ بن کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ آج پاکستان کے حوالے سے باہر کے ممالک میں وہ کچھ ہورہا ہے جو ملک کے اندر بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ہم اس بات سے آگاہ نہیں کہ ہر ملک میں سیاسی اختلافات کے باعث بہت ساری پارٹیاں ہیں اور ہر ملک کے باشندے بیرون ملک بھی بستے ہیںمگر ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایک پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے لوگ بیرون ملک دوسری پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کاجیناحرام کردیں۔ اس طرح معاشرتی معاملات چل بھی نہیں سکتے۔ ہمیں ہمارا آئین کیا سکھاتا ہے؟ ہمیں ہمارا دستور یہ ہی سکھاتا ہے کہ انصاف ہونے تک قانون کا احترام کرو۔ جو قوم قانون کا احترام نہیںکرتی وہ قوم مشت خاک ہوکر بکھر جاتی ہے۔ قوم اور قانون میں بہت گہرا اور فطری تعلق ہوا کرتا ہے۔اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم انصاف ہونے تک قانون کا احترام کریں۔مگرہمارے لیے قانون وہ کھلونہ بن چکا ہے جس کو توڑنے کا ہم تہیہ کر چکے ہیں۔ اس لیے ہم بیرون ملک میں بھی اپنے قومی وقار کو بڑھانے کے بجائے اسے گھٹانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔اس لیے میں کسی ایک پارٹی کسی ایک جماعت کی بات نہیں کر رہا۔پاکستان کی دو بڑی جماعتوں میں آج کل عالمی سطح پر ایک دوسرے کو خوار کرنے کا جو میچ جاری ہے اس میں ہار ملکی حصے میں آئے گی۔ ہم نے دیکھا کہ لندن میں کیا ہوا؟ میاں نواز شریف کے گھر کے سامنے مظاہرے معمول بن گئے اور نہ صرف میاں نواز شریف اور ان کی فیملی بلکہ شریف فیملی کے پڑوسی بھی تنگ آگئے ؛ کیوں کہ ہر آتا جاتا وہ پاکستانی جو میاں صاحب کا سیاسی مخالف تھا وہ گزرتے وقت اپنا من پسند نعرہ لگاتا جاتا۔اس طرح شریف فیملی کے گورے پڑوسی اس مصیبت سے تنگ آگئے اور انہوں نے مقامی انتظامیہ میں شکایت بھی کی کہ ان کا آرام حرام ہوگیا ہے۔ شریف فیملی کے پڑوسی ان لوگوں کے بارے میںکچھ نہیں جانتے سوائے اس کے کہ وہ پاکستانی ہیں۔ اس لیے بدنامی افراد کے حصے میں نہیں بلکہ قوم کے مقدر کا حصہ بنی۔میاں نواز شریف کے بیرون ملک بسنے والے حامیوں سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ ان کے لیڈرکواس طرح حراساں کیا جائے؛ لہذا انہوںنے اس کا توڑیہ نکالاکہ انہوں نے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ گولڈ سمتھ کے گھر کے سامنے مسلم لیگ ن کے حامیوں کا احتجاج بھی کیا اور یہ اس سے برا تھا۔کیوں کہ میاں نوازشریف تو اپنے لندن والے گھر میں بستے ہیںمگر جمائمہ کے گھر میں تو ایسا کوئی نہیں جو عمران خان کاسیاسی حامی ہو۔ پھروہاں تماشہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم اس بات کو آخر کب سمجھیں گے کہ غلطیاں افراد کرتے ہیں مگر سزا اقوام کو بھگتنی پڑتی ہے۔ ہم نے اگر علامہ اقبال کے پیغام کوفراموش نہ کردیا ہوتا توآج ہم سمجھ سکتے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیاکہا تھا؟انہوں نے اس نازک نکتے پر اصرار کرتے ہوئے لکھا تھا : ’’افراد کے ہاتھوںمیں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ افراد سے ہی اقوام کا جنم ہوتا ہے۔ وہ افراد ہی ہیں جنہوں نے محنت کی ہے۔جنہوں نے مشقت کی ہے۔ جنہوں نے قربانی دی ہے۔ جنہوں نے برداشت کیا ہے،تاکہ ان کی اس قربانی کی نتیجے میںان کا ملک ترقی کرسکے۔ ان افراد کو ہمارا سلام جنہوں نے اپنے آنسو صرف اس لیے روک رکھے کہ ان کا ملک مسکرا سکے۔ جب باہر کے ممالک میں پاکستان کے اندرونی سیاسی مسائل کے حوالے سے ہلڑ بازی کا مظاہرہ ہوتا ہے تب بدنامی پورے پاکستان کے حصے میں آتی ہے ۔ اس عمل کا نقصان ان پاکستانیوں کو بھی ہوتا ہے جو اندھیری اور سنسان رات میں صرف اس لیے ٹریفک سگنل نہیں توڑتے کہ کہیں ان کا ملک نہ بدنام ہو۔کہیں یہ نہ کہا جائے کہ پاکستانی ایسے ہوتے ہیں۔ ہم کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ جب ہم اپنے ملک میں ہیں تب ہمارے سر پر خاندان کی عزت ہوا کرتی ہے مگر جب ہم بیرون ملک جاتے ہیں تب ہمارے سر پر پورے ملک کی عزت سجی ہوتی ہے۔ہم کواس بات کا احساس بھی ہونا چاہیے کہ عزت نازک شیشے کے مانند ہواکرتی ہے۔جب یہ ٹوٹتی ہے تب ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ اس قوم کی طرح جوقوم قانون کا احترام نہیں کرتی۔ چوراہے ہرملک میں ہوا کرتے ہیں۔ چوراہے پوری دنیا میں موجود ہوتے ہیں۔ چوراہے اس لیے ہوتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی کا وہ راستہ چنیں جوہمیں اپنی منزل کی طرف لے جائے۔ جب ہم چوراہوں کو راستوں کی تلاش کے حوالے سے نہیں لیتے۔ جب ہم چوراہے صرف گھرکی گندگی کی نمائش کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہم نہ صرف اپنے آپ پر بلکہ ان چوراہوں پر بھی ظلم کرتے ہیں۔ وہ چوراہے جواس لیے نہیں بنائے گئے کہ ہم وہاں اپنے گھر کے گندے کپڑے دھوئیں۔ ہم جب بین الاقوامی چوراہوں پر کھڑے ہوکر چو چور کے نعرے لگاتے ہیں تب ہمارا ملک تماشہ بن جاتا ہے۔ جب ہمارے ملک کے دشمن ملک کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے کام میں دن رات مصروف ہیں تب ہم عالمی سٹیج پر کھڑے ہوکر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں گے تو اس کی قیمت اس قوم کو ادا کرنی ہوگی جو قوم غلط اور گناہگار سیاسی ومعاشی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی مالی اداروں کی مقروض ہے۔