پوری انسانیت کا مسئلہ تو یہ ہے کہ انسانی زندگی کی حقیقت اور اس زندگی کی گزر بسر کا کامیاب طریقہ میسر رہے۔انسانی زندگی کب انسان کے اختیار میں ہے؟ اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ ابھی تک دریافت ہوا ہے کہ انسان اپنی زندگی کو مستقل طور پر قابو کر لے۔ علم اور عقل کی روشنی میں جو حتمی حقیقت سامنے آتی ہے، اس کے مطابق زندگی کے نظام کو ایک تواتر اور توازن کے ساتھ چلانے کے لیے ایک مرکزی لا محدود اور نہایت با اختیار قوت ہے جو انسانی زندگی کی تخلیق اور اسباب حیات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ اس کے نظام ہدایت میں ایک سلسلہ ہے جو انسانی معاشروں کے تضادات اور تصادم میں بالکل سادہ اور آسان راستہ عطا کرتا ہے۔ ہدایت کے اس سلسلے کو عام انسانوں تک پہنچانے والے بلند علم اور کامل کردار والے منتخب انسان نبی یا رسول ہوتے ہیں۔ کائنات کی ہر روشنی اور تمام صراط ہدایت اور کل حقائق اشیاء اور جمیع طرازِ افکار صالحہ اور نجات کی تمام منازل وابستہ کر دی گئی ہیں اس ذات اقدس کے ساتھ، جن کے لیے ایک طغریٰ منصب مخصوص کر دیا گیا ہے۔ یہ عظیم طغریٰ کائنات کے دوامی کمال پر پوری سج دھج سے نور افشانی کر رہا ہے… وَمَا اَرْسَلْنٰکَ الاَّ رَحْمَۃَ لِلّعَالَمِیْن ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام عالمین کے لیے رحمتِ بنا کر بھیجا ہے رحمت ہی کائنات کی سب سے بڑی اورحقیقی قوت ہے۔ جو خالق ارض و سماء کی جانب سے ودیعت کی جاتی ہے۔ کاروبار حیات و ممات اور ظاہر و باطن کی ملکوتی، بشری جن و انسان کی تمام سرگرمیاں رحمت کے بھروسے پر ہی جاری رہتی ہیں اور اس رحمت کی تلاش ہر ذی نفس کو رہتی ہے تا کہ وہ اپنی حیاتِ مستعار کو اتنا روشن اور منظم کرے کہ اس کے مقاصد زندگی پورے ہو جائیں اور اسے نئی معرفت نفس حاصل ہو جائے جس سے وہ اپنے خالق، معبود حقیقی کی جانب سے محبت کا راستہ تلاش کر لے اور فوز عظیم کا مستحق ہو جائے۔ زندگی کی ہر تاریک راہ پر شیطان کے جال اور شیطان کی خفیہ چال بہت ہی قریبی فضاء قائم کیے ہوئے ہے۔ راستہ ہولناک ہے۔ منزل دور ہے، دشمنوں کا سامنا ہے لیکن پھرخالق دستگیری کرتا ہے۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا نور چمکتا ہے۔ انسان کے لیے ظاہر و باطن کی تاریکیاں دم توڑ جاتی ہیں اور رحمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ پکڑ کر شاہراہِ نور پرگامزن کر دیتی ہے۔ آج کا عجب اور پرتاریک بے دین، منافقانہ اور متکبرانہ ماحول انسانیت کی تذلیل پر آمادہ رہتا ہے لیکن مایوسی کے پرانے ادوار پر نظر پڑتی ہے تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کاملہ سے آشنائی کے طفیل ہر زمان و مکان میں نجات اور شادمانی کی اطمینان بھری خبریں ملتی ہیں۔ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات، آپؐ کی ولادت مبارکہ پر کائنات کے نظم میں ایک ماورائی اور غیر یقینی تبدیلی نے کائنات کے فکری حجود کو پاش پاش کر دیا اور انسانی دل و دماغ کی غلاظتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دائمی دستور عطا کیا۔ ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ظہور میں آنے والے معجزات نے ایک جانب مادیت اور کفر و طغیان کی بے حسی کو جھنجوڑا اور دوسری طرف انسان کے دائرہ عمل کی وضاحت کی کہ کائنات بشری کا روحانی دائرہ اتنا وسیع ہے کہ زبردستوں کی قسمت کی تبدیلی انسان کوشش سے مشروط کر دی گئی ہے۔ حیوانات و نباتات اور جمادات سب ہی انسان کی ایمانی قوت کے سامنے ڈھیر ہیں۔ عمل کی قوت ایمان کے استحکام سے وابستہ ہے۔ عمل کی قوت کا مظہر سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ ایمان کا استحکام آپؐ سے بے پایاں اور غیر مشروط محبت کا نام ہے، محبت میں شرط زمانہ نہیں ہوتی، محبت میں قید مکانی بھی نہیں ہوتی ہے۔ محبت روح اور جان نچھاور کرنے کا نام ہے۔ محبت ذکر محبوب میں خوبیاں تلاش کرنے کا نام ہے۔ محبت محبوب کے نام پر خوبی کو اجاگر کرنے کا نام ہے۔ یہ رسول اکرم ہیں، حبیب خدا ہیں اور تمام انبیاء ومرسلین کے سربراہ ہیں۔ ان کے وجود اقدس کاظہور ہوا تو کائنات کا وجود اس طرز پر استقبال کر رہا تھا کہ زمین و آسمان معجزات کی زد میں آ کر معجزنمائی کر رہے تھے۔ قصر سلاطین دنیاوی پر لرزہ طاری تھا۔ آتش کدہ فارس ٹھنڈا پڑا ۔کعبے کے بت اوندھے منہ گر رہے تھے اور خود کعبہ تجلیات حق کے سراپا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لیے جھکا جا رہا تھا ع تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا انبیاء صالحین علیٰ نبینا و علیھم الصلوٰۃ والسلام مسلسل خبریں دے رہے تھے کہ کائنات کا ممدوح اعظم اور ہر ضعیف اور بے کس کے نجات دھندہ تشریف لا رہے ہیں اور پھر وقت ولادت سیدہ طیبہ آمنہ سلام اللہ علیھا دائما ابداً کو کائنات کے عجائبات دکھائے گئے اور آسمانی نور کی برکات و انوار کا مشاہدہ کرایا گیا اور ایسے منفرد معجزات کا اظہار ہوا کہ لوگ مشرق و مغرب میں کائنات کی تبدیلی کو محسوس کر رہے تھے۔ یہ حیات ایمان کی اصل ہے کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مستحکم کرنے کے لیے خدائی احکامات اور خدائی اقدامات کے حوالوں سے اپنے علم و ایمان کو آشنا کیا جائے۔ یہ بھی ایمان کو بارسوخ کرتا ہے جب ہم رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و عظمت کو قرآن آیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اہم آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے ممدوحین کی شخصیت کو بہرحال وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب سے وابستہ رکھے اور حلقۂ غلامیٔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باہر ہرگز ہرگز شمار نہ کرے۔ بے ادبی اور بہت بڑی نحوست ہوتی یہ کہنا بھی ازلی شقاوت اور گستاخیٔ رسول ہے کہ فلاں مولانا کے چہرے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارکہ نظر آتا ہے۔ یہ اسلوب کلام بھی جاہلانہ ہے کہ کفار کے متبرک مقامات کو مدینہ طیبہ و منورہ یامسکن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا قرار دے۔ اگر حکمران ، ذمہ داران اور صاحبان عقل و شعور ایسی جہالت کا ارتکاب کرتے ہیں تو خرابی کا ناقابل تلافی اقدار فکر جنم لے گا۔ اللہ تعالیٰ پناہ عطا فرمائے۔