لاہور کے ہر باخبر اخبار نویس کو علم تھا کہ 11اگست کو پیشی پر مریم نواز شریف ہجوم کے ساتھ نیب آفس کا رخ کرینگی اور مسلم لیگ(ن) کے کارکن اس موقع کو یاد گار بنانے کی کوشش کریں گے۔1997ء میں میاں نواز شریف نے پیشیوں سے تنگ آ کر اپنے لاہوری کارکنوں کو سپریم کورٹ پر دھاوا بولنے کی ترغیب دی‘ مرکز اور صوبے میں حکومت تھی‘ سرکاری وسائل دسترس میں اور پولیس و انتظامیہ کا تحفظ حاصل‘چنانچہ کارکنوں کا ایک جتھہ ارکان اسمبلی کی قیادت میں اسلام آباد پہنچا‘ پنجاب ہائوس میں ٹھہرا اور وقت مقررہ پر عدالت عظمیٰ پہنچ کر تفویض کردہ فرائض بحسن و خوبی انجام دیے ‘باقی تاریخ ہے۔ 11اگست کو مریم نواز شریف کا قافلہ جاتی عمرا سے چلا تو 92نیوز کے مستعد رپورٹر فہیم امین نے ایک گاڑی میں پتھروں کے تھیلوں کی موجودگی افشا کر دی‘ واضح ہو گیا کہ نیب آفس اور اس کی سکیورٹی پر تعینات پولیس نفری کی خیر نہیں لیکن قابل داد ہے سردار عثمان خان بزدار کی حکومت‘ لاہور پولیس اور انتظامیہ کہ جاتی عمرا سے ملتان روڈ پہنچنے تک اس نے پتھروں والی گاڑی کی تلاشی لینا گوارا کیا نہ نیب آفس کے باہر شرپسند عناصر کو ہلڑ بازی سے روکنے کی کامیاب حکمت عملی وضع کی اور نہ مریم نواز کی پیشی کو یقینی بنانے کے لئے فول پروف انتظامات کئے۔ مریم نواز کا منصوبہ کامیاب رہا‘ ان کے کارکنوں نے رکاوٹیں ہٹا دیں‘ پولیس اور انتظامیہ کے علاوہ نیب آفس پر دل کھول کر سنگباری کی اور پیشی کو ناممکن بنا دیا۔ لاہورپولیس‘ انتظامیہ اور بزدار حکومت کی کیا جوابی حکمت عملی تھی؟ کسی کو علم نہیں‘ سارا دن میڈیا پر مریم نواز چھائی رہیں اور یہ تاثر پختہ ہوا کہ شریف خاندان کے کسی فرد کا جی اگر نہ چاہے تو کوئی حکومت انہیں گرفتار کر سکتی ہے نہ نیب کے کسی افسر کے سامنے پیش ہونے پر مجبور اور نہ بدترین قانون شکنی پر انہیں ہاتھ لگانے کی کسی کو مجال۔ ہلڑ بازی ہمارے سیاسی کارکنوں کا دل پسند مشغلہ ہے اور قانون شکنی قیادت کی نظروں میں قابل تحسین کارنامہ‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور عمران خان میں سے کسی نے اپنے کارکنوں کو کبھی ہلڑ بازی سے روکا نہ قانون پسندی کا درس دیا‘ پاکستانی سیاست ہی نہیں سماج میں ہر وہ شخص دلیر کہلاتا ہے جو پولیس سے ہاتھا پائی کرے‘ انتظامیہ کے قانونی احکامات کی مٹی پلید اور سڑکوں پر توڑ پھوڑ‘ جلائو گھیرائو اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے۔1977ء میں لاہور کی سڑک پر مولانا شاہ احمد نورانی کی پگڑی تار تار کرنے والے کارکنوں کو ذوالفقار علی بھٹو نے داد دی‘ 12مئی کو الطاف حسین کے قانون شکن کارکنوں نے کراچی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے استقبال کے لئے جمع ہونے والے وکیلوں کو زندہ جلایا اور چیف جسٹس کا شہر میں داخلہ بند کیا تو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے مُکا لہرا کر اسے عوامی ردعمل قرار دیا‘ توہین عدالت کے مرتکب نہال ہاشمی‘ طلال چودھری وغیرہ نے قیادت سے خوب داد سمیٹی۔ کل کے واقعہ میں ملوث مسلم لیگی کارکن گرفتار اور حوالہ زنداں ہوئے لیکن منصوبہ ساز محفوظ اور اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مشغول ہیں جبکہ ریاست اور ریاستی ادارے زبانی جمع خرچ میں مگن۔ لاہور پولیس مستعدی دکھاتی‘ ٹی وی فوٹیج سامنے آنے پر مسلم لیگی جلوس سے پتھروں کے پیکٹ برآمد ‘ قانون شکنی کا منصوبہ طشت از بام کرتی‘مریم نواز شریف کی نیب میں پیشی کو یقینی بناتی اور قانون شکنی کے مرتکب و منصوبہ سازوں کو قصہ زمین برسرزمین کے مصداق اسی شام گرفتار کر لیتی تو حکومت کی دھاک بیٹھتی اور مسلم لیگ کی قیادت کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ سپریم کورٹ پر حملہ کا داغ اب تک مسلم لیگ اپنے دامن سے مٹا نہیں سکی‘ نیب پر حملے کا الزام اس کی ساکھ خراب کرتا اور مریم نواز شریف کو لینے کے دینے پڑ جاتے‘ مگر حکومتی اداروں کی کمزور منصوبہ بندی اور گومگو پالیسی کے سبب الٹا چور کوتوال کے ڈانٹے کے مصداق مسلم لیگی قیادت نیب‘ لاہور پولیس اور حکومت کے لتّے لے رہی ہے اپنے ہی کارکنوں کے پتھرائو کا الزام پولیس پر لگا کر مظلومیت کی چادر اوڑھنے والی قیادت کو یہ موقع حکمرانوں نے خود فراہم کیا تو وہ فائدہ کیوں نہ اٹھاتے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی ملزم عدالت یا کسی ریاستی ادارے کا رخ جلوس کی صورت میں کرتا ہے نہ کوئی سیاسی لیڈر اپنے کارکنوں سے پولیس و ادارے پر پتھرائو کراتا اور اسے کارکنوں کا ذاتی فعل قرار دیتا ہے۔ پاکستان کا مگر باوا آدم نرالا ہے یہاں ہلڑ بازی اور قانونی شکنی سکّہ رائج الوقت ہے اور خوفزدہ ریاستی ادارے قانون شکنوں کی سرکوبی کے بجائے خوشامد کے عادی ہیں تبھی یہاں سیاستدانوں اور ان کے زرخرید کارکنوں کو ٹی وی کیمروں کے سامنے گاڑیوں میں پتھر بھر کر لے جانے اور پولیس پر پتھرائو کرنے کی جرأت ہوتی ہے اور ڈیڑھ دو گھنٹے کی پریس کانفرنس میں سارا ملبہ سرکاری اداروں پر ڈال کر حلقہ نیابت سے داد سمیٹی جاتی ہے۔ کسی مہذب ملک میں یہ واقعہ ہوتا تو ذمہ داروں کو مُنہ چھپانے کے لئے جگہ نہ ملتی۔ کمزور حکومتی حکمت عملی نے مریم نواز شریف کو موقع فراہم کیا وہ ایک بار پھر میڈیا پر نمودار ہوئیں اور اپنے پریشان حال‘ متذبذب کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر یہ باور کرایا کہ مسلم لیگ ن کی اصل لیڈر وہی ہیں جو حکومت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہیں‘ تاہم اس پریس کانفرنس میں میاں شہباز شریف سے قربت رکھنے والے کئی لیڈروں کی عدم موجودگی سے مسلم لیگ میں دھڑے بندی کا تاثر گہرا ہوا اور گرفتار کارکن اگر طویل عرصہ جیلوں میں رہے‘ مقدمے میں مطلوب دیگر لیڈر گرفتار ہو گئے اور مریم نواز شریف کی اگلی پیشی کے موقع پر پولیس و انتظامیہ نے بہتر حکمت عملی دکھائی تو یہ تقسیم میاں نواز شریف کے خاندان اور جماعت والوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی‘ محاذ آرائی کی سیاست نے اب تک شریف خاندان کی مشکلات میں اضافہ کیا‘میاں شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست سے جو تھوڑا بہت ریلیف ملا‘ مریم نواز شریف کی تازہ مہم جوئی اس کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ کا کوئی دھڑا عمران خان کی مشکلات میں اضافہ چاہتا یا سردار عثمان بزدار کی کمزور حکمرانی کو طشت ازبام کرنے کا خواہش مند ہے تو مریم نواز ایک قدم اور آگے بڑھائیں گی اور یہ تماشہ جاری رہے گا‘ کمزور ریاستوں میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اُصول چلتا ہے۔ حمزہ شہباز شریف اور میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے نیب اور لاہور پولیس کو جو پاپڑ بیلنے پڑے وہ کل کی بات ہے۔ مریم نواز شریف اور اس کے منصوبہ ساز ساتھی بھی اگر حکومتی اعلانات کی بھد اڑانے میں کامیاب رہے تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں‘ ان کے کئے کی سزا بھی غریب کارکن ہی بھگتیں گے‘ وہ جیل میں بھگت رہے ہیں کہ کارکنوں کا مقدّر جیل اور قائدین کا استحقاق اقتدار ہے یا اپوزیشن میں بھی سرکاری مراعات کے مزے لوٹنا۔ بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے۔