گنگا کنارے آباد بنارس ،کاشی یا وارانسی اپنی ٹیڑھی میڑھی پتلی پتلی گلیوں ،مورتیوں مندروں ،چراغوں،اشلوک پڑھتے سادھوؤں سنتوں اور مالا جپتے پجاریوں سے مشہور ہے، ہندوؤں کے اس مقدس شہر کوبادلوں میں تیرتے کسی جہاز کی کھڑکی سے دیکھا جائے توگنگا کنارے پہنچنے والی پتلی پتلی گلیاں جاڑے میں دھوپ سینکتے اژدھوں کی طرح لگتی ہیں اس شہر میں ویسے ہی جا بجا مندر ہیں جیسے استنبول میں مساجد،اسی لئے بنارس کو مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ بنارس کے غریب مسلمانوں کامذہبی منافرت کے اس واقعے پر وہی ردعمل تھا جو ایک کچلی ڈری سہمی اقلیت کا ہوتا ہے۔ انکے وسوسے پہلے سے بڑھ چکے ہیں، خدشات اور ڈر خوف میں اضافہ ہو چکا ہے۔ نریندر مودی کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد بنارس کے مسلمانوں میں عدم تحفظ پہلے سے بہت بڑھ گیا ہے اسکی وجہ مذہبی منافرت کے ساتھ ساتھ وہ کوریڈور بھی ہے جو وشواناتھ مندر کے لئے بنایا جارہا ہے نریندر مودی کا کہنا ہے کہ گنگا میں اشنان اور وشواناتھ مندر میں پوجا پاٹ کے لئے آنے والے ہندو زائرین کو ان پتلی پتلی گلیوں سے گزرنے میں دقت ہوتی ہے ان کے سکھ آرام کے لئے ان پتلی پتلی گلیوں کو چوڑا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ’’ ہندواستھان‘‘ کے ہندو کاشی کے مندروں میں پوجا پاٹ کر سکیں اور گنگا میا میں نہا کر پاک صاف ہو جائیں۔ بنیاد پرست نریندر مودی کے اسی منصوبے نے بنارس کے مسلمانوں کو سہما رکھا ہے انکی آنکھوں سے خوف جھلک رہا ہے انہیں ڈر ہے کہ یہاں ایودھیا کی تاریخ نہ دوہرائی جائے۔ جس طرح ہندؤں کے مسلح جھتوںنے ترشول لہراتے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگاکر بابری مسجد پر چڑھائی کی تھی اسے شہید کیا تھا اسی طرح وشواناتھ مندر سے متصل گیا ن واپی مسجد کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا،گیان واپی مسجد تین گنبدوں والی کئی سو سال پرانی مسجد ہے ،پہاڑی پتھروں سے بنی یہ سفید رنگ کی مسجد ہندستان پر مسلمانوں کے اقتدار کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ کہتے ہیں سولہویں صدی میں اورنگزیب عالمگیر نے اسے تعمیرکروایا تھا۔اس مسجد کے ساتھ ہی وشواناتھ کا مندر بھی ہے، دیوار کے ایک طرف ایک خدا کو ماننے والے رکوع و سجود کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف ڈھائی کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا پاٹ کرنے والے مندر کی گھنٹیاں بجا رہے ہوتے ہیں ۔اس پر گیان واپی مسجد کو اعتراض ہے نہ وشواناتھ مندر کولیکن اانتہا پسندوں کو مسجد ایک آنکھ نہیں بھاتی ،بنارسی مسلمانوں کا کہناہے کہ بنارس کی تنگ گلیوں کو کوریڈرو کے نام پر کشادہ کرنا دراصل گیان واپی مسجد کو شہید کرنے کی تیاری ہے اس وقت تنگ گلیوں کی وجہ سے ہندؤں کے جتھے مسجد کا حصار نہیں باندھ سکتے ان کے لئے میدان بنایا جارہا ہے مسجد کے آس پاس مکانات گرائے جا رہے ہیں۔ جس پر صرف مسلمان ہی نہیں، متاثر ہونے والے ہندو بھی پریشان ہیں۔ کہ یہ کیا ہو رہا ہے آج تک ان تنگ گلیوں میں کوئی بھگدڑ نہیں ہوئی پھر سرکار کس چکر میں ہے؟ بنارس میں نریندر مودی کے خلاف الیکشن لڑنے والے کانگریسی رہنما اجئے رائے کا کہنا ہے کہ گنگا ماں کا بیٹا بن کر آنے والے نریندر مودی کو آج گنگا میا کا بالکل خیال نہیں۔۔۔اجئے رائے کا یہ الزام گنگا کی آبی آلودگی پر نظر رکھنے والے درست قرار دیتے ہیں مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈٖ(CPCB) کے مطابق مغربی بنگال تک گنگا کا پانی پینا تو چھوڑیئے نہانے کے لائق بھی نہیں،سی پی سی بی کے مطابق انہوں نے گنگا کو 86مقامات سے چیک کیا 78 مقامات کا پانی آلودہ ملا،اس سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق گنگا کا پانی 2013 کے مقابلے میں مزید آلودہ ہوا ہے ، سی پی سی بی کی اس رپورٹ پر ایک سچے ہندو بھگت کے طور پر نریندر مودی کی نیندیں اڑ جانی چاہئیں تھیں وہ گنگا میا کو اجلا پن دینے میں جت جاتے ان گندے نالوں کا منہ بند کر دیتے جو گنگا میامیں چوبیس گھنٹے گند اگلتے ہیں حیرت انگیز طور پر نریندر مودی گنگا کو چھوڑ کر وشواناتھ مندر کی تنگ گلیوںکوکشادہ کرنے کی پڑی ہوئی ہے اور ایسے موقع پر پڑی ہے جب ہندو مہا سبھا گیان واپی مسجد شہید کرنے کے لئے مہا سبھائیں منعقد کررہی ہے۔انتہا پسند ہندو تین ہزار مساجدشہید کرنے کا ہدف رکھتے ہیں جن میں اس وقت سنسکرت نام کی اکلوتی گیان واپی مسجد سرفہرست ہے ،مسجد کی شہادت کے لئے ماحول بنایا جارہا ہے ہندوؤں کے مذہبی دارلخلافے کی مٹی مذہبی منافرت کے لئے خوب زرخیز ثابت ہو سکتی ہے۔ جولائی میں پندرہ سالہ مسلمان لڑکے کو پکڑ کر جے شری رام کے نعرے لگوانے کے لئے دھمکانا اور نعرے نہ لگانے پر مٹی کا تیل چھڑک کر جلا دینا محض کچھ لڑکوںکی شرارت نہیں یہ واضح اشارے ہیں کہ بنارس کی گلیوں کو دیواروں کو پان کی پیکوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لہو سے بھی سرخ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ یہی خوف بنارسی مسلمانوں کے چہروں پر دیکھا جا سکتا ہے اس خوف میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب انہیں آس پاس کوئی مضبوط سہارہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔کشمیر یوں کا حال ان کے سامنے ہے۔جہاں نوے لاکھ کی آبادی قید ہے اور سوائے پاکستان ترکی کے کسی مسلمان ملک کی جبیں پر شکن تک نہیں پڑی بلکہ شکن کیا پڑتی امارات کے عربوں نے تو نریندرا مودی کو ریاست کا سب سے بڑا اعزاز دے ڈالا۔ان کی مہمان داری تھمی تو بحرین کے شیخ کی باری آگئی انہوںنے نریندرا مودی کوسینے سے لگا کر ریاست کا سب سے اعلیٰ اعزاز دے دیا۔ ایسے میں بنارس کے ڈرے سہمے مسلمان متمول عرب شیوخ سے ائیر کنڈیشن مسجدوںمیں دعاؤں کے سوا کیا امید رکھیں اور دعائیں بھی وہ جو بھی دل ہی دل میںمانگی جائیں!!