اس سبز رنگ کی آنکھ کے گرد تناور پلکوں کا سبزہ ایستادہ ہے۔ ہم راولا کوٹ کے تاریخی سرکٹ ہائوس میں ایک رات قیام کے بعد ابھی ابھی بنجوسہ پہنچے تھے۔ گزشتہ برس وادی نیلم گئے تھے۔ اب کی بار بنجوسہ آ گئے۔ راولا کوٹ سے بنجوسہ 40منٹ کی مسافت پر ہے۔ سولہ سترہ کلو میٹر کا پہاڑی سفر کئی جگہ سبزے کی رات جیسا ماحول ہوتاہے‘ کھائی گلہ سے جونہی ہم دائیں طرف مڑے زیر تعمیر سڑک پر گاڑی کی رفتار مزید آہستہ ہو گئی۔ پتا چلا کوئی فیصل آباد کا ٹھیکیدار ہے جس نے ڈیڑھ سال قبل یہ سڑک شروع کی‘ غیر معیاری کام کی شکائت کر دی گئی‘ تب سے یہ سڑک اسی طرح پڑی ہے۔ ایک خوبصورت دوشیزہ اپنی بانہیں کھولے ہوئے کھڑی تھی‘ مگر ہمیں گاڑی کے پہیوںنے احساس دلایا کہ بھائی یہ حسینہ اوبڑ کھوبڑ ہے۔ ہماری رہائش کا انتظام ڈی جی ٹور ازم جاوید ایوب نے ایک سرکاری گیسٹ ہائوس میں کر رکھا تھا۔ اس کے پانچ کمرے تھے۔ سڑک سے رہائشی عمارت تک ایک طویل پختہ راستہ ہے۔ عمارت کے مشرقی سمت سڑک ہے۔ باقی تینوں اطراف گھنا جنگل۔ گیسٹ ہائوس کے اردگرد کوئی ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر خار دار تاروں کی باڑ لگا دی گئی ہے تاکہ جانور رہائشی حصے کی طرف نہ آ سکیں۔ سامان کمرے میں رکھ کر برآمدے میں آئے تو خانساماں نے دوپہر اور رات کے کھانے کے متعلق استفسار کیا۔ انجان جگہ گوشت کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہم نے فوراً جھیل پر جانے کا ارادہ کیا اور رات کے لیے دال ماش بنانے کا کہہ دیا۔ سامنے والی سڑک جنوب کی طرف بڑھتی ہے۔ کوئی دو سو فٹ پیدل چلیں تو ایک گھاٹی سے پیدل راستہ نیچے جھیل کی طرف اترتا ہے۔ مناہل نے اباجی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا میں اور بیگم ان سے چند قدم پیچھے تھے۔ بچوں اور بزرگوں کو ایسے راستوں پر نظروں کے سامنے رکھنا چاہیے۔ گھاٹی اترتے ہی ایک پتھریلا راستہ سامنے تھا۔ اس راستے کے کنارے کشمیری پاپلر کے بلند قامت درخت کھڑے تھے۔ بیگم کو معلوم ہے میں بوٹوں پودوں اور بیلوں سے باتیں کرتا ہوں۔ یہاں تو بہت سے نئے درخت اور جھاڑیاں تھیں جنہیں میں پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ لاہور میں پاپلر کے پتے بڑے ہوتے ہیں۔ یہ درخت زیادہ پرانا ہو جائے تو اس کا تنا اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے‘ مگر جھیل کے قریب کھڑے پاپلر خاصے مضبوط معلوم ہوئے‘ ان کے پتے بھی چھوٹے تھے۔ تھوڑا آگے بڑھے تو ایک جھاڑی پر چھوٹے چھوٹے کانٹوں میں توت جیسا پھل لگا نظر آیا۔ چکھا تو بالکل توت جیسا ذائقہ تھا۔ ایک اور جھاڑی پر پھل دکھائی دیا۔یہ ترشی مائل کڑوا تھا۔ میری طرح اباجی بھی پتے اور پھلوں کا ذائقہ چکھ رہے تھے۔ بیگم منع کر رہی تھی کہ کوئی زہریلی چیز نہ ہو۔ ہم باپ بیٹے کے درمیان درختوں سے والہانہ محبت قدر مشترک ہے۔ جھیل سے تھوڑا پہلے چپس‘ بسکٹ‘کولڈ ڈرنک ‘ پکوڑوں‘ آئس کریم کی دکانیں ہیں۔ دو معذور دکھائی دینے والے نوجوان ویٹ مشینیں رکھے بیٹھے تھے۔ ایک دس گیارہ سال کا بچہ بلبلے بنانے والا محلول ڈبی میں فروخت کر رہا تھا۔ ایک اور بچہ دال سویاں بیچ رہا تھا۔ بنجوسہ جھیل تین اطراف سے بلند پہاڑیوں میں گھری ہوئی ہے۔ مغرب کی طرف اس کے سامنے چالیس فٹ کا ایک بند بنا دیا گیا ہے جس سے پہاڑیوں سے آنے والے جھرنے اور چشموں کا پانی یہاں جمع ہو گیا ہے۔ جھیل بہت خوبصورت ہے‘ یہاں ہر چیز سبز ہے۔ خیال بھی سبز آتے ہیں‘ مجھے لگا کہ سن 1852ء میں امانت لکھنوی کے لکھے شہرہ آفاق ڈرامے ’’اندر سبھا‘‘ کی سبز پری بنجوسہ کے کنارے رہتی ہے۔ ہم جھیل کے کنارے بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈنے لگے۔ سبز قطعہ موجود تھا مگر ہمیں بنچ کی تلاش تھی۔ دو بنچ عین جھیل کے کنارے نصب تھے مگر ان کے گرد جھاڑیاں اور پلاسٹک کے بیگ دیکھ کر طبیعت نہ مانی۔ ہم فطرت کی تلاش میں سینکڑوں میل دور چلے آتے ہیں مگر ماحول کو صاف رکھنے کی ذرا سی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ بنجوسہ جھیل کے شمالی کنارے پر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہم نے جنوبی کنارے کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ وہ کنارہ گھنے درختوں میں چھپا ہوا تھا۔ ایک طویل چکر کاٹ کر ہم اس طرف گئے چھوٹی سی پختہ سڑک جنگل میں اکیلی اور تنہا معلوم ہوئی۔ مجھے اداس اور تنہا راستے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ میری روح اس راستے پر کئی تنہائیوں سے گلے مل رہی تھی۔ ایک مناسب ڈھلوان سے ہم نیچے جھیل کی طرف اترے۔ یہاں کنارے سے تھوڑا پہلے ایک نشست گاہ بنی ہوئی ہے۔ شائد کچھ لوگ کوئلوں پر چائے بناتے رہے تھے اس لیے بنچوں کے پاس کوئلے بکھرے ہوئے تھے۔ کنکریٹ کے پلیٹ فارم کے ساتھ ہی چھوٹی چھوٹی قدرتی پھولوں کی جھاڑیاں تھیں جو ایک چادر کی طرح بچھی ہوئی تھیں۔ چپس اور پلاسٹک کے بیگ یہاں بھی بدصورتی پھیلا رہے تھے۔ نزدیکی دکان سے ہم نے آلو کے پکوڑے اور کھانے کی کچھ دیگر چیزیں خرید لی تھیں یہی دوپہر کا کھانا تھا۔ مغرب کے قریب گیسٹ ہائوس واپس آئے تو پتہ چلا بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بجلی منقطع ہے۔ آٹھ سے دس بجے تک جنریٹر چلے گا۔ اس دوران کھانا کھانے ‘ موبائل فون چارج کرنے اور ٹی وی دیکھنے کے کام کرنا ہوں گے۔ انٹر نیٹ کافی سست ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ٹی وی لگایا تو زیادہ تر بھارتی اور بنگلہ دیشی چینلز تھے۔ پاکستان کے دو تین نیوز چینل آ رہے تھے۔ بیزاری سے ٹی وی بند کر دیا۔ رات گئے بارش شروع ہو گئی۔ جانے کتنے زمانوں کے بعد بارش اور خاموشی کو ایک ساتھ محسوس کیا۔ کمرے کی ایک کھڑکی جنگل کی طرف کھلتی ہے۔ صبح پٹ کھولے تو آڑو کی بھیگتی شاخیں کمرے میں گھسنے کی ضد کرنے لگیں۔ سامنے والی کھڑکیاں کھولیں تو سبز صحن‘ اس کے بعد باڑ‘ پھر نشیب میں باغ اور جھولے اور اس کے آگے سڑک دکھائی دی۔ ناشتے کا انتظام برآمدے میں کرایا۔ اس دوران ہلکی بارش میں تصویر کشی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یہاں سے جھیل کنارے کھڑے چیل کے بلند درختوں میں گھسے سیاہ بادل بہت بھلے دکھائی دے رہے تھے۔ میں زیادہ دیر جھیل سے دور نہیں رہ سکتا تھا۔ میں نے بارش میں وہاں جانے کا اعلان کر دیا۔ مناہل بھی ساتھ جانے کو تیار تھی ہم دونوں پانچ چھ منٹ میں جھیل پر پہنچ گئے۔ یوں لگ رہا تھا ہم بھی کوئی بادل ہیں جو یہاں اپنی پیاسی روحوں کے مشکیزے لے کر پانی بھرنے آئے ہیں۔ اس سارے سفر میں دوست کالم نگار ارشاد محمود ہر مرحلے پر رہنمائی کرتے رہے۔ ارشاد محمود راولا کوٹ کے ہیں ان کے دوستوں سردار عبدالرزاق خان اور راشد نذیر سے وہاں ملاقات خوب رہی۔ بنجوسہ میں بھی پیغام ملا کہ رات کا کھانا ارشاد محمود کے ایک دوست کی طرف سے ہے۔ جھیل کے پاس ہی ایک ریسٹورنٹ ہے۔ جس کے باہر سیب کا درخت ہے۔ میں نے مناہل کو اٹھایا مگر اس کا ہاتھ سیب تک نہ پہنچ سکا۔ فاز ریسٹورنٹ پر کئی خاندان کھانے کے لیے آ رہے تھے۔ مجھے لگا کہ حکومت آزاد کشمیر بنجوسہ پر انٹرنیٹ،صفائی‘ روشنی اور کچھ دیگر سیاحتی سہولیات پر توجہ دے تو یہ مقام بڑی تعداد میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم جھیل کی طرف چل پڑے۔ رات کے وقت جھیل مخملیں بستر پر آرام کرتی ایک شہزادی محسوس ہوئی جس کے محافظ دیو پلنگ کے اردگرد کھڑے تھے‘ درخت اس وقت دیوزاد لگ رہے تھے۔ ایک طویل چکر کاٹ کر اندھیرے میں چلتے چلتے ہم گیسٹ ہائوس پہنچ گئے۔ عجب بات یہ تھی کہ نہ ڈاکو کا خوف نہ چوری کا ڈر‘ ہمیں تو کہیں پولیس بھی نظر نہ آئی۔ اگلے دن واپسی تھی۔واپسی پر آزاد پتن پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے راستہ بند تھا۔ دریائے جہلم کے پل کے دونوں طرف ایک ایک کلو میٹر تک ٹرک‘ کاریں ویگنیں کھڑی تھیں۔ ہماری وین والے نے دوسری طرف ایک وین والے سے بات کی۔ ہم کیچڑ میں سے گزر کر سڑک پر گرنے کو تیار بڑے بڑے پتھروں کے نیچے سے جس خوف کے عالم میں گزرے یہ الگ کہانی ہے۔ اس راستے کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت کو ضرور کچھ کرنا چاہیے۔ چار روز کے بعد ہم حبس اور گرمی کی زد میں آئے ہوئے لاہور پہنچ گئے۔ شاید ہم لاہور نہیں پہنچے۔ درختوں کے جھنڈ میں سبز پانیوں سے بھری بنجوسہ کے پاس پھولدار بیلیں بن کر وہیں رہ گئے ہیں۔