بالا کوٹ پر بھارتی فضائی حملے کا پول غیر ملکی میڈیا اور امریکی تھنک ٹینک نے کھول دیا‘ چند درخت گرے‘ ایک کوّا مرا اور ایک بوڑھا زخمی ہوا۔ بھارتی حکومت چاہتی تو فضائیہ کے سربراہ سمیت ان تمام لوگوں کا کورٹ مارشل کرتی جن کا فلاپ آپریشن نریندر مودی سرکار کے لئے جنگ ہنسائی کا موجب بنا ‘مگر خود فریبی کے مرض میں مبتلا حکومت نے پروپیگنڈے کے زور پر سیاہ کو سفید ثابت کرنا چاہا‘ ناکام رہی‘ البتہ پاکستان کی جوابی کارروائی اور دو طیاروں کی تباہی کا ذمہ دار قرار دے کر ایک ائر مارشل کو ریٹائرڈ کیا گیا۔ توقع یہ تھی کہ پاکستانی فضائیہ سے بُری طرح مار کھانے اور عالمی سطح پر رسوائی سمیٹنے کے بعد مودی سرکار ہوش کے ناخن لے گی۔ جنگی جنون بڑھانے کے بجائے درجہ حرارت کم کرے گی اور پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش و کوشش کا خیر مقدم کرے گی ‘ابھی نندن کی رہائی کو پاکستان کا خیر سگالی اقدام تصور کیا جائے گا اور قیام امن کے لئے پاکستانی جذبے کی قدر ہوگی مگر بھارت ایک ایسی انتہا پسند‘ منتقم مزاج‘ تنگ نظر اور جنونی قیادت کے چنگل میں ہے جسے پاکستان تو کیا بھارتی عوام کی زندگی عزیز ہے نہ خطے کے امن و سکون سے کوئی غرض۔ نریندر مودی کے ماضی سے واقف ہر ذی شعور جانتا ہے کہ یہ خود غرض اور مفاد پرست شخص سیاسی فائدے کے لئے قتل و غارت سے گریز کرتا ہے نہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کی آگ بھڑکانے میں دیر۔ مسلمانوں کے بارے میں اس کے جذبات کا اندازہ برسوں قبل اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔’’آپ کو سانحہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے لقمہ اجل بننے پر افسوس ہے‘‘ انٹرویو کے دوران خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے نمائندے نے نریندر مودی سے پوچھا۔’’اگر آپ گاڑی ڈرائیو کر رہے ہوں یا کوئی دوسرا گاڑی چلا رہا ہو‘ آپ ساتھ بیٹھے ہوں اور کتے کا پلّا(Puppy) گاڑی کے نیچے آ جائے تو بطور انسان آپ کو افسوس کیوں نہ ہو گا‘‘ گجرات کے قصاب نے برجستہ جواب دیا‘ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے نریندر مودی کو کشمیریوں کا قاتل اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے گجرات کا قصاب قرار دیا تو پاکستانی عوام کو خوشی ہوئی اور یاد آیا کہ ہماری سیاسی قیادت کو کشمیریوں کے اس قاتل اورگجرات کے قصاب کی حقیقی شخصیت کا علم حالیہ کشیدگی کے دوران ہوا ورنہ ہمارے بیشتر سیاستدان بالخصوص میاں نواز شریف اور دانشور و تجزیہ کار تو اس کی سیاسی بصیرت‘ سفارتی کامرانیوں اور انسان دوستی کا کلمہ پڑھنے لگے تھے ۔پاکستان اور عمران خان نے خطے میں قیام امن کے لئے جو بھی غیر معمولی اور جرات مندانہ اقدامات کئے انہیں بھارت کی طرف سے رد کیا جا رہا ہے‘ کبھی پاکستانی پانیوں میں آبدوز بھیج کر مذموم ارادوں کا اظہار ہوتاہے‘ کبھی بھارتی را افغان این ڈی ایس سے پاکستانی فوجی طیارہ گرانے کی فرمائش کرتی ہے اور کبھی اسرائیل کے ساتھ مل کر میزائل داغنے کا منصوبہ بنتا ہے صرف بھارتی حکومت نہیں‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کا غالب حصہ بھی جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے اور پاکستان سے بدلہ لینے کے نعرے لگ رہے ہیں۔ بھارت ممکنہ طور پر ایک بار پھر میزائل یا فضائی حملہ کرسکتا ہے ‘ٹارگٹ ہمارے ایئر بیسز کے علاوہ سٹریٹجک اثاثے ہوں گے ‘یا پھر مقبوضہ کشمیر و بھارتی سرزمین پر دہشت گردی کا واقعہ اور پاکستان میں اے پی ایس ‘ واہگہ بارڈر اور جی ایچ کیو جیسی واردات۔ تینوں صورت میں پاکستان دبائو میں ہو گا اور امن کی کوششیں رائیگاں چلی جائینگی۔ تاہم پاکستانی قوم کو یقین ہے کہ عمران خان کی قیادت میں مستعد حکومت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میںچاک و چوبند فوج مل جل کر اس سازش کو ناکام بنانے کی اہل ہے۔ بھارت محض بدلہ لینے اور پاکستان کو سبق سکھانے کے چکر میں نہیں‘حالیہ دو طرفہ کشیدگی سے کشمیر ایک بار پھر فلیش پوائنٹ بنا اور عالمی برادری کو احساس ہوا کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو برصغیر میںکسی نہ کسی وقت ایٹمی جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں ۔بھارت نے جارحیت اس وقت کی جب مقبوضہ کشمیر میں فوجی وحشت و بربریت اپنی انتہائوں کو چھو رہی تھی اور کلبھوشن جادیو کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں منطقی انجام کو پہنچ رہا تھا ۔بھارتی مہم جوئی کا مقصد کشمیر میں فوجی ظلم و ستم اورکلبھوشن کے مقدمے سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا تھا۔بالا کوٹ حملے کے ذریعے عالمی رائے کو کلبھوشن جادیو کے بجائے جیش محمد اور مولانا مسعود اظہر کی طرف متوجہ کرنے کی تدبیر۔ یہ سعی مگر سعی رائیگاں ثابت ہوئی‘ تدبیر کند بندہ‘ تقدیر زند خندہ‘ جوابی وار میں پاکستان نے بیک وقت کئی مقاصد حاصل کئے۔1971ء سے روایتی ہتھیاروں میں بھارتی برتری کا بھرم ٹوٹا‘ بھارتی فوج کی پیشہ وارانہ نااہلی‘ ناقص حکمت عملی اور مبالغہ آمیز پروپیگنڈے کا راز فاش ہوا اور بھارتی عوام کو پہلی بار یہ پتہ چلا کہ نریندر مودی محض الیکشن جیتنے کے لئے نہ صرف فوج کو استعمال کر رہا ہے بلکہ ملک کے امن و سلامتی کو بھی دائو پر لگا چکا ہے۔ نریندر مودی کی مہم جوئی نے بھارت میں سیاسی‘ ثقافتی‘ مذہبی اور سماجی تقسیم میں اضافہ کیا جبکہ پاکستانی قوم کو متحد ہونے کا موقع ملا۔ پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ اور غیر ذمہ دار ریاست ثابت کرنے کے لئے بھارت نے جو چال چلی وہ بفضل خداالٹی پڑ گئی اور دنیا اب پاکستان کو ایک معتدل مزاج‘ امن پسند اور ذمہ دار ملک کے طور پر دیکھ اور سمجھ رہی ہے۔ بھارت میں سرمایہ کار پریشان ہیںاور پاکستان میں سرمایہ کاری کا رجحان فروغ پذیر۔ گزشتہ روز ایک چینی کمپنی نے پاکستان میں دو ارب ڈالر سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہرکیا جو ہماری اہم کامیابی ہے۔ شورش زدہ اور جنگ کے خطرات سے دوچار ملک میں کون بے وقوف سرمایہ کاری کرتا ہے۔ بھارت ایک تنگ نظر‘ انتہا پسند اور اقلیت دشمن ریاست تھی اور ہے‘ کانگریس کے دور حکمرانی میں مسئلہ کشمیر نے جنم لیا‘ ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان 17اگست 1947ء کو ہوا جس میں جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کی راہ ہموار کرنے کے لئے گورداس پور سمیت مشرقی پنجاب کے وہ علاقے جو پاکستان کے حصے میں آتے تھے بھارت کے حوالے کئے گئے‘ آج جو حلقے موہن داس کرم چند گاندھی کی انصاف پسندی اور پاکستان دوستی کا ورد کرتے ہیں انہیں یاد نہیں کہ گاندھی نے اس ناانصافی پر احتجاج کیا نہ پاکستان کی آواز میں آواز ملائی‘ ریڈ کلف ایوارڈ کے اعلان پر جموں و کشمیر میں احتجاجی لہر اٹھی جس کو ڈوگرہ راجہ نے طاقت سے دبانے کی کوشش کی مگر گاندھی جی خاموش رہے‘ ڈوگرہ راجہ کی اس سختی اور تشدد نے بغاوت کو جنم دیا جو کشمیر کے ایک حصے کی آزادی پر منتج ہوئی ‘ گاندھی نے کبھی نہرو کو روکا نہ اپنے شردھالو شیخ عبداللہ کو ٹوکا‘ ورنہ تاریخ مختلف ہوتی۔ سب سے زیادہ مسلم کشی فسادات سیکولرازم کی علمبردار کانگریس کے دور حکمرانی میں ہوئے‘ لہٰذا صرف نریندر مودی کو دوش دینا زیادتی ہے۔ نریندر مودی کا ایک کریڈٹ ہے کہ وہ جواہر لال نہرو‘ اندرا گاندھی ‘من موہن سنگھ اور واجپائی کی طرح منافق نہیں بغل میں چھری منہ میں رام رام جپنے کی بجائے وہ مسلمانوں‘ کشمیریوں اور پاکستان کاکھلا دشمن ہے اور اس نے بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے لئے اپنے عزائم کبھی چھپائے نہیں۔ ششی تھروور کا تو دعویٰ ہے کہ نریندر مودی اگر ایک بار پھر اقتدار میں آیا تو وہ آئین کو تبدیل کر کے بھارت کو ہندو ریاست قرار دے گا اور دوسری اقلیتوں کو ہندو مت اختیار کرنے پر ملک چھوڑنے کے لئے کہے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہمیں الیکشن جیتنے میںنریندر مودی کی مدد کرنی چاہیے کہ بھارتی سیکولرازم کا پردہ فاش ہو‘ایسا خونخوار سیکولرازم جس نے ستر برسوں میں کسی اقلیت کو جینے کا حق دیا نہ مسلمانوں کا یہ گناہ معاف کیا کہ وہ علامہ اقبال‘ محمد علی جناح کے ہم عقیدہ و ہم نام ہیں۔ یہ ڈر لیکن نریندر مودی کی کامیابی سے ہے کہ بڑے ملک کے‘ بڑے منصب پر فائز چھوٹے ذہن کا یہ شخص کہیں برصغیر میں آگ ہی نہ لگا دے۔ بندر کے ہاتھ میں ماچس ہو تو یہ کھٹکا فطری ہے۔ خواہ اس آگ میں بندر خود ہی کیوں نہ جل مرے۔ ہوش مند ریاست کے طور پر پاکستان بندر کے ہاتھ سے ماچس چھیننے میں مشغول ہے۔ پاکستان کی حکومت‘ اپوزیشن‘ فوج اور میڈیا کی ہوش مندی کا اعتراف دنیا کر رہی ہے کاش‘ ماچس چھیننے میں ہماری مدد بھی کرے۔