ہر نیک عمل کے پیچھے حسنِ نیت اور اخلاص کا ہونا ضروری ہے ۔ نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور کوئی بھی عمل حسنِ نیت کے بغیر قبولیت اور درجہ کمال کو نہیں پہنچتا۔ اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں لیکن بعد ازاں کسی رکاوٹ کے باعث نہ کرنے کے باوجود بھی ہمیں اس نیک نیت کا اجر مل جائے گا۔ نیت خود ایک مطلوب عمل ہے ۔ یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاء کے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کر لے لیکن کسی مجبوری کے باعث نہ کرسکے تب بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کر لے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جاتا ہے ۔(صحیح مسلم)کیوں کہ اس کی تائیداس ارشادِ باری تعالیٰ سے ملتی ہے ، فرمایا:’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں‘‘۔(الانعام: 166)یہ نیکی کا کم سے کم اجر ہے ۔ ایک نیکی پر اجر کہاں تک بڑھتا ہے ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ابن آدم کے ہر عمل میں روزے کے علاوہ نیکی کو دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بے شک روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔‘‘(صحیح مسلم) نیکیوں اور درجات کے کم و بیش ہونے کی وجہ حسنِ نیت ہے ۔ نیت عمل کے پیچھے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کی مانند ہے ۔ نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا، وہ عمل اسی قدر روشنی پا کر جگمگائے گا اور اجر و ثواب پائے گا۔نیت کے اندر موجود خالصیت اور للہیت اس نیت کے نور، قوت، برکت، قبولیت اور درجے کو بڑھانے کا سبب ہے ۔ جوں جوں نیت کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عمل کا درجہ اور اجر و ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر عمل میں دکھاوا پایا جائے تو وہ محض ایک عمل بن جاتا اس کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں۔‘‘ (آل عمران، 3: 145)اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔‘‘(بخاری ومسلم)ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:نِیَّۃُ المُؤْمِنِ خَیْرٌ مِنْ عَمَلِہِ، وَعَمَلُ المُنَافِقِ خَیْرٌ مِنْ نِیَّتِہِ:مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہے ۔( المعجم الکبیر) اس لیے مقدار زیادہ ظاہر کر کے عمل کے اجر و ثواب کو بڑھایا نہیں جاسکتا۔ اگر خلوصِ نیت کے ساتھ کیے گئے عمل کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو وہ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ اجر کا مستحق ہوتا ہے ۔ اگر محض نیتِ حسنہ ہو اور عمل کسی مجبوری سے رہ جائے تو اُس نیت کا بھی اجر ہے لیکن اگر محض عمل نیک ہو اور اس کے پیچھے نیت نیک نہ ہو تو نیک عمل بھی کسی اجر کا باعث نہیں بنتا بلکہ رائیگاں جاتا ہے ۔ گویا نیت بغیر عمل کے بھی درجہ اور ثواب دیتی ہے جبکہ بغیر نیت کے عمل، کمال تو دور کی بات درجہ اور ثواب بھی نہیں دیتا۔ اگر نیتِ باطلہ آ جائے تو نہ صرف عمل اجر سے محروم ہو جائے گا بلکہ باعثِ عذاب بھی ہوگا۔ عمل کی قبولیت یا مردودیت، عمل کے کمال یا عذاب میں بدل جانے کی کنجی نیت میں ہے ۔ہم اپنی زندگیوں میں بہت سے عمل بلا جھجک کرتے ہیں لیکن وہ رائیگاں جاتے ہیں۔ جو عمل نیت اور ارادے کے بغیر کیا جائے وہ عمل نہیں بلکہ فعل کہلاتا ہے ۔ اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا کیونکہ یہ اعمال ہماری عادتیں ہیں۔ افعال اور اعمال میں فرق ہے ۔ جو کام بغیر ارادے کے کئے جائیں وہ افعال و عادات ہیں اور جو کام ارادے کے ساتھ کئے جائیں وہ اعمال ہیں۔ فعل پر اجر نہیں چونکہ وہ عادت ہے ، عمل کا اجر ہے اس لئے کہ وہ عبادت ہے ۔ اگر ہم چاہیں تو زندگی کا ہر لمحہ عبادت بنا لیں لیکن افسوس کہ ہم نے ساری زندگی بے کار کر رکھی ہے ۔ ہماری زندگی کے سب لمحے رائیگاں جا رہے ہیں۔ ہم روز کھانا کھاتے ہیں مگر کھانا کھاتے ہوئے کبھی ایسی نیت نہیں کرتے جس سے ہمارا کھانا بھی عبادت میں بدل جائے حالانکہ یہ ممکن ہے ۔ اگر ہم یہ نیت کر کے کھائیں کہ اس کھانے سے اللہ کی عبادت و اطاعت اور دین مبین کی خدمت کے لئے میرے جسم کو قوت میسر آئے ۔ اتنی نیت کرنے میں ہمارا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا مگر جو کچھ رزق حلال میں سے ہم کھائیں گے اس کا ایک ایک لقمہ عبادت بن جائے گا۔ پس اتنی نیت نے ہمارے کھانے کو عبادت بنا دیا۔ ہم روز کھاتے ہیں مگر کبھی اس طرح کی نیت نہیں کی۔صرف بسم اللہ پڑھ لینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور کئی کو تو یہ توفیق بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح نیت نیند کو بھی عبادت بنا دیتی ہے ۔ اہل اللہ کی نیند دوسرے لوگوں کی نفلی عبادت سے افضل ہے کیوں کہ وہ جب سوتے ہیں تو اس نیت سے سوتے ہیں کہ جسم کو آرام ملے تاکہ صبح تازہ دم ہوکردین کی خدمت بجا لاسکیں، عبادت و اطاعت بجا لا سکیں، فرائض دین جو ان کے سپرد ہیں انہیں قوت کے ساتھ انجام دے سکیں۔ پس اس نیت سے سونے سے لے کر بیدار ہونے تک ان کا ہر لمحہ عبادت بن جاتا ہے ۔ ملائکہ ان کے سرہانے اور پائنتی کھڑے ان کی بخشش کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔گویا نیت کی قوت اتنی ہے کہ اُس نے نیند، چلنے پھرنے ، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کو بھی عبادت بنا دیا۔ ہم اپنی زندگی میں بے شمار عمل کرتے ہیں جس میں نیت ہی نہیں ہوتی۔ پس وہ افعال اور عادات ردی کی ٹوکری میں چلے جاتے ہیں۔ ان کا نامہ اعمال میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ صرف نیت کا مسئلہ اگر سمجھ لیا جائے تو پوری زندگی بدل جائے اور لمحہ لمحہ عبادت بن جائے ۔ لہذا جو کام بھی کرنے لگیں بس یہ دیکھیں کہ یہ کام اللہ کی رضا کا ہے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کی متابعت و مطابقت میں ہے ۔ یعنی اس کا تعین کرلیں کہ وہ کام اللہ کے حکم کے خلاف نہ ہو کیونکہ ہر وہ کام جو مباحات زندگی میں سے ہے اگر اللہ کے لئے اس کی نیت کرلی جائے تو وہ عادت نہیں رہے گی بلکہ عبادت ہو جائے گی۔