’’ میں اسپتال میں مریض دیکھ رہا تھا جب فون بجا فون اٹھایاتو اسکرین پر بیگم کانام نمایاں تھا ،گھر سے کال تھی میں نے وصول کی اہلیہ نے ادھر ادھر کی دو تین باتیں کی اور فون رکھ دیا۔ یہ فون کال ہماری روزمرہ کے معمولات میں سے ہے کو۔ئی کام ہو یا نہ ہو اہلیہ دن میں ایک بار لازمی فون کرتی ہیں۔ کبھی کھانے کا پوچھتی ہیں کبھی طبیعت کا پوچھتی ہیں اور کبھی سوال ہوتا گھر کب تک آئیں گے۔یہ بے معنی سے سوال بڑے معنی رکھتے ہیں۔میں جب مسز سے بات کررہاتھا تو میرے ساتھ کام کرنے والی نرس اسمانتھا سامنے ہی تھی اس نے مجھ سے پوچھا’’ڈاکٹر! آپکی مسز کیا کرتی ہیں ؟ ‘‘ میںنے جواب دیا وہ مزے کرتی ہیں ۔وہ میری ہوم منسٹر ہیں ،میری یہ بات اسمانتھاسے ہضم نہ ہوئی شاید اس کا پہلے کسی ایشین اور خاص کر پاکستانی کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ وہ کوئی جاب کیوں نہیںکرتیں ؟میں نے بتایا کہ انہیں ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ گھر سنبھالتی ہیں میرااور میرے بچوں کا خیال رکھتی ہیں۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ ہم مسلمان مرد گھر کے باہر کا کام اپنے ذمے رکھتے ہیں اور گھر کا کام ہماری بیویوں کے سپرد ہوتا ہے ،میری بات پر اسمانتھا نے حسرت سے کہا ’’کاش مجھے بھی کوئی ایسا مل جائے میںسترہ سال کی تھی جب سے کام کررہی ہوںاب تو میرے جسم کی ہڈیاں بھی دکھنے لگی ہیں۔ چالیس برس کی زندگی میں تین بوائے فرینڈ بدل چکی ہوں کہ وہ گھر کے اخراجات میں ٹھیک سے شراکت داری نہیں کرتے تھے، اسمانتھا نے کہاکہ اس نے کسی اچھے لائف پارٹنر کے لئے کئی اداروں میں خود کو رجسٹرڈ بھی کروا رکھا ہے دیکھو کب قسمت کھلتی ہے ‘‘۔ ’’ایک دن میںکلینک میں تھا جب ایک عجیب سے حلیے والا بندہ میرے پاس ایک بچہ لے کر آیا اسکی طبیعت کچھ خراب تھی۔میںنے اسکا چیک اپ کیا اور کچھ سوال کئے تو اس نے کہا کیاآپ اسکی ماں سے بات کرلیں گے مجھے زیادہ علم نہیں ،یہ کہہ کر اس نے کوئی نمبر ڈائل کیاا ور فون مجھے تھما دیا میں نے ہیلو کہا تودوسری جانب سے اچھی خاصی بھاری بھرکم مردآنہ آواز سنائی دی میں نے اسے کہاکہ مجھے بچے کی ماں سے بات کرادیں تواس نے کہا میں بچے کی ماں ہی بول رہا ہوں ،پوچھیں کیا پوچھنا ہے میں نے ذرا تعجب سے پوچھا کہ آپ ہی اسکی ماں ہیں تو اس نے قدرے خٖفگی سے کہا کیوں کوئی مرد ماں نہیں ہو سکتا۔ ایک دن میں گھر میں تھا جب بیل بجی میں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے میری پڑوسن موجودتھی ،وہ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی ۔میری اس پڑوسن کے چھ بچے ہیں او ر ہر بچے کا باپ مختلف ہے اس پر اسے کوئی پشیمانی افسوس شرمندگی نہیں کہ حمیت نام تھا جس کا،گئی تیمور کے گھر سے ۔ اور پریشانی یوں نہیں کہ ان بچوں کے سارے اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔ معاشرے کی لاتعلقی اور نجی زندگی کو حاصل قانونی پشتیبانی نے پشیمانی ،شرمندگی کے معنی بدل دیئے ہیں،یہاں ازدواجی تعلقات کو جسمانی ضرورت کے خانے میں ڈال کر بارٹر سسٹم کا ’’ٹائٹل ‘‘ دے دیا گیا ہے جیسے گئے وقتوں میں جس کے پاس مرغیاں تھیں وہ بکری والوں سے بکری کے بدلے مرغیوں کی پیشکش کا سودا کر کے کام چلا لیتا تھا تعلقات کے معاملے میں یہی اصول یورپ امریکہ میںکئی دہائیوں سے رائج ہے‘‘۔ ان واقعات کے راوی برطانیہ میںمقیم ڈاکٹر راجہ محمد علی ہیں جوخوشحالی کے تعاقب میں برطانیہ گئے۔ وہاںکی شہریت لی برطانوی نژاد پاکستانی ہوئے۔ اور ان دنوں واپس وطن لوٹنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے وہاں بڑے ہوں وہ چند ماہ پیشتر اسلام آباد آئے بھی تھے کہ یہاں کہیں گھر لے کر اپنی فیملی کووہاں کے آزاد ماحول سے نکال کریہاںکے اس ’’گھٹن زدہ ‘‘ ماحول میں شفٹ کردیا جائے جہاں مغرب کی جانب روشن دان کھول کر تازہ ہوا کے جھونکوں کے لئے یہاں کی ’’فرزانائیں ‘‘ متحرک ہیں وہ اسے حقوق نسواں کی تحریک کہتی ہیں ان کے بقول پاکستان کی عورتیں ،صنفی امتیاز کا شکار ہیں ، بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دی جاتی ہے انہیں گھر وں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا ، زبردستی شادیاں کروائی جاتی ہیں ،دیہات میں فرسودہ رسوم رواج ہیں ۔کہیں قرآن سے شادی ہے تو کہیں ونی ہے۔ ان سب مطالبات میں ایک بھی ایسا نہیں کہ جسکی مخالفت کوئی سمجھ دار انسان کرے ،لیکن یہ سوال اپنی دم پر کھڑا ہے کہ عورت مارچ کے نام سے چارج ہونے والی بیبیاں اس حوالے سے کر ہی کیا رہی ہیں؟ انہوں نے کیا ہی کیا ہے ؟ ملک میں کون سا دن جاتا ہے جب کوئی نہ کوئی ماں بھوک سے بلکتے بچے لے کر کنویں یا نہرچھلانگ نہ مارتی ہو یہ کبھی کسی ایک کے بھی گھر گئیں، بچ رہنے والے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا ؟ کتنے ہی خواجہ سرا بدسلوکی کا نشانہ بنتے ہیں یہ کس کے ساتھ کب کہاں کھڑی ہوئیں؟ کتنی ہی کم سن ملازمائیں سنگدل مالکنوں کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں نیوز چینلز کے کیمرے آئے دن کسی نہ کسی کم سن محنت کش کو ٹیلی وژن کی اسکرین پر لاتے رہتے ہیں یہ بیبیاں کتنوں ملزمان کے خلاف مقدمات میں مدعی ہیں ؟پھر کوئی یہ سمجھائے کہ عورتوں کے لئے کئے جانے والے احتجاج میں،لادینوں، ہم جنس پرستوں،مذہب بیزاروں کی باقاعدہ آمد کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ اس بار کراچی کے ایک ہال میں ایل جی بی ٹی کے کج رو پہلی بار اپنی کمیونٹی کے قوس و قزح کے رنگ والے پرچم کے ساتھ موجود تھے ۔تہذیب و ثقافت اور اقدار سے منافی بینرز پلے کارڈ ز ،مذہبی اقدار سے متصادم نعرے ۔۔۔یہ وہی آزادی نہیں جس سے آج یورپ عاجز ہے۔ اسی آزادی نے آج امریکہ میں ناجائز بچوں کی تعداد بیالیس فیصد تک پہہنچادی ہے اور فرانس میں پینسٹھ فیصد بچے بنا شادیوں کا نتیجہ ہیں ۔مشرقی یورپ میں تو ہرسو میں سے ستر بچے ناجائز تعلقات کی پیداوار ہیں ،کیا ہم بھی اس صف میں آجائیں ؟اگر ایسے بے نام بچوں کی نسل پالنا ہی آزادی ہے تو ہمیں بخشا جائے ہم رجعت پسند ،بنیاد پرست ہی بھلے۔