اس نے کہا : ایسی مخلوق اب میں بنائوں گا کہ میری عبادت کرے اور اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ ۔ چاہے تو انکار کر دے ، چاہے تو شکر کرے ۔ مدتوں سے مذہب کے باب میں ، اس کے مقاصد کے بارے میں ہم حیران و سرگرداں پھرتے ہیں ۔ ان تعلیمات پہ مطمئن بیشتر لوگ ساری زندگی گزار دیتے ہیں ، جو انہیں ورثے میں ملی ہوں ۔ مذہب کا مگر ایک طے شدہ مقصد تھا ، بنیادی مقصد ۔ غور کرنے والوں نے کبھی اس پر بھی غور کیا ؟ بہت پہلے سائنسدانوں نے تحقیق و جستجو میں قدم رکھا اور ادھر آیاتِ قرآنی کی تفاسیر لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بے شمار تفاسیر لکھی گئیں۔ ہر طبقہ ء خیال نے طبع آزمائی کی ۔ اہم ترین پہلو مگر بھلا دیا گیا ۔ زمان و مکاں کے تغیرات اور سائنسی علوم کا فروغ مفسرین کا مددگار ہوتا ۔ ہو ابالکل برعکس ۔ محدود انکشافات کی دنیا میں وہ مقید ہوتے گئے ۔ سائنس اس کے سوا شاید کچھ بھی نہیں کہ ہمارے تخیلا ت کو مجسم کرتی ہے ۔ ایسی خوفناک چیز وہ ہرگز نہ تھی کہ اسے مذہب کا حریف سمجھ لیاجائے۔ یہ ضرور ہے کہ بعض حقائق کو اس نے ہم پہ واضح کیا ۔ سائنس کو ئی حتمی چیز نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی مگر یہ بھی کہ بعض حقائق کو وہ مجسم کر دیتی ہے ۔ یہ مگر کیا ہوا کہ بیشتر لوگ ہر چیز سے بڑھ کر اس پر ایمان لے آئے ۔ ادب سے ، اقدار سے ، حتیٰ کہ مذہبی فکر بھی سائنس سے مغلوب ہو گئی۔ ہمارا تصور اب یہ ہے کہ مذہب کسی معاشرے کی تخلیق کے لیے آیا تھا۔ مجھے تو ایسا نہیں لگتا ۔ آغازسے مذہب آدمی کی رہنمائی کرتا رہا ۔ یاد کراتا اور تلقین کرتا رہا ۔ ہمیشہ سے آدمی اور مذہب کو ایک دوسرے سے واسطہ رہا ۔ ماہرِ عمرانیات ڈاکٹر سمتھ نے یہ کہا تھا :Homo Sapien is homo religious۔ ابتدائی انسان مذہبی انسان تھا ۔ ہم سوچتے ہیں ، جنگلی ،وحشی آدمی جو شکار پہ بسر کرتا اور وحشت کا شکار تھا ، وہ مذہبی کیسے ہو ا؟ ہم جانتے نہیں تھے ۔سائنس نے ہماری مدد کی ۔ فاسلز کے مطالعے نے ہمیں شواہد عطا کیے اور ٹھیک نتیجے پر ہم پہنچ گئے ۔عمرانیات کے تمام ماہر متفق ہیں کہ قدیم انسان مذہبی تھا ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔سچائی پوری طرح روشن ہو گئی ، جب قرآنِ کریم میں ہم نے پڑھا شروع میں سب مواحد تھے ۔بعد میں انہوں نے بت پرستی شروع کی ۔ بعد میں ان کے خوف اور آسیب مجسم ہوئے ۔ ہندوستان کی ’’کالی ‘‘ ،’’ درگا‘‘اوریونانی دیوتائوں کا خاندان بعد کی بات ہے ۔ بھارت میں دیوتائوں کی تعداد بتدریج کروڑوں تک پہنچ گئی ۔ پہلے کیا تھا؟اس پر ایک عظیم ماہرِ عمرانیات کی رائے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا ۔حیران کن حد تک وہ قرآنِ کریم کی تفسیر ہے ۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر میکس ٹائر نے بڑی عجیب و غریب بات کی ۔ اس نے کہا"Concept of a true God is the earliest concept" ۔ خدا ئے واحد کا تصور آدمی کا اوّلین تصورہے ۔ آدمیت کی ابتدا میں دیوتا نہیں تھے ۔ فقط خدائے واحد تھا ۔ اس حی وقیوم اور قادر و عادل کے سوا کچھ نہ تھا ۔آدمی حیران رہ جاتاہے ۔ کیا اس نے قرآن پڑھا تھااور اس آیت کی تفسیر کی کہ ابتدا میں سب مواحد تھے۔ تاریخ پروفیسر میکس ٹائر کی تصدیق کرتی ہے ۔ بھارت ہی کو لیجیے ۔ جب اس میں ایک اور پھر دوسری تثلیث تخلیق ہوئی ۔آریا ہندوستان میں داخل ہوئے تو ان کا معبود ایک تھا ،خدائے واحدـــ’’اندرا ‘‘ ۔ ہندوستان میں داخل ہوئے تو پروردگار کی دو شادیاں کرا دی گئیں ۔’’متھرا ‘‘ اور ’’ورونا‘‘ ، دو عدد دیویوں سے۔ ایک زمانے کے بعد وہ پھر وحدانیت کے قائل ہو گئے ۔ پھر خدائے واحد کو ماننے لگے ،’’برہما ‘‘کو۔جلد ہی انہوں نے دو عدد دیوتا اور گھڑ لیے ۔ ’’وشنو‘‘ اور ’’شیوا ‘‘ ۔ یہی کچھ یونان میں ہوا ۔ جس طرح سیاست میں ایک خاندان کی وراثت تشکیل پاتی ہے ، اسی طرح ایک کنبہ ترتیب دیا گیا۔’’زیوس ‘‘(Zeus)اس خاندان کا سربراہ تھا۔ اس میں ’’ حیفسٹس‘‘ (Hephaestus)، ارس (Ares)تھے اور ہر مس (Hermes)۔ ماہرینِ عمرانیات نے تحقیقات جاری رکھیں تو پھر اسی نتیجے پر پہنچے کہ ان سب سے پہلے ایک ہی معبود کا تصور تھا ، جسے وہ ’’کرونس ‘‘کہا کرتے ۔ بتوں کے کسی بھی خاندان کو کھوجیے،علم الاصنام پر تحقیق کرتے جائیے تو بالاخر آپ ایک خدا تک پہنچیں گے ۔ اللہ یہی کہتاہے ۔ اپنی جبلتوں کی تسکین اور اپنے جذبات کو جواز مہیا کرنے کے لیے آدمی نے دیوتا تخلیق کیے ۔ ان کی پرستش شروع کر دی ۔ خواتین و حضرات! مذہب تھا کیوں ؟ سوال یہ ہے کہ مذہب تھا کیوں ؟ کیا اللہ نے یہ بستی اس لیے بسائی تھی کہ لوگ خود اپنے اپنے نظام تخلیق کریں ۔ اپنے اپنے طریق اختیار کریں ۔ مختلف قوموں میں بٹیں ، رنگوں میں بٹیں ۔ کیا اس لیے کہ یہ زمین ان کے سپرد کر دی گئی تھی ۔ بھلا اس زمین کی حیثیت کیا ہے ؟ اتنی کمزور کہ خلا سے اترنے والا پتھر اس کے پورے وجود کو مسمار کر کے رکھ دے ۔ سائنسی نقطہء نظر سے میں با ت کر رہا ہوں ۔ جی ہاں ، ایک پتھر اس کرّ ہ ء خا ک کو تحلیل کر سکتا ہے ۔ اس زمین کو جس میں ہم رہتے بستے ہیں ۔ چند ایک بڑے زلزلے مدار سے اس کو نکال سکتے ہیں ۔ تین حصے اس زمین پر پانی کے ہیں ۔ اگر یہ بپھر جائے تو ساری زمین زیرِ آب آسکتی ہے ۔ آسمان سے اترتا برف کا سیلاب آٹھ آٹھ، دس دس میل تک تک زمین کو ڈھانپ سکتا ہے۔ کیا یہ پہلے نہیں ہوا ؟ اگر ہوا اور یقینا ہوا تو اب کیوں ہو نہیں سکتا؟ اگر ایک محدود سونامی آسکتاہے تو ایک بڑا سونامی بھی۔پھر کچھ بھی باقی نہ بچے گا ؟ کیا ہم نے حضرتِ نوح ؑ کے زمانے کا سیلاب نہیں دیکھا کہ صرف ایک کشتی کے سوار بچ سکے ۔ کیا ابد لآباد تک ہمیں اس زمین پر رہنا ہے ۔ سائنس تو یہ نہیں کہتی ۔ سائنسدان تو یہ نہیں کہتے ۔ ابھی ابھی پچھلے برس اپنے عہد کا سب سے بڑاسائنسدان سٹیون ہاکنگ دنیا سے اٹھا ۔ اٹھنے سے پہلے کہہ گیا کہ زیادہ سے زیادہ ایک صدی تک یہ زمین آباد رہ سکتی ہے ۔ آدمی کو پناہ ، خوراک اور سازگار موسم مہیا ہو سکتا ہے ۔ پھر اس سیارے پر آدمی کا جینا محال ہو گا ۔ کتنی عجیب بات ہے ، کتنی عجیب بات کہ اتنا بڑا سائنسدان ، اس قدر نئے حقائق کا سراغ لگانے والا شہہ دماغ اللہ تک نہ پہنچ سکا ، ایمان نہ لا سکا ۔ ہم اس قابل کہاں کہ اللہ کی آرزو کرتے ۔ ہماری استعداد ہی کیا تھی کہ خدائے کائنات کی آرزو کرتے ۔ ہم میں کون سا ایسا کمال تھا کہ آسمانوں کی خبر رکھتے۔ کیا ہم نے آسمان کو اپنے سروں پہ بلند نہیں دیکھا تھا ۔ کیا ہم نے دیکھا نہیں تھا کہ کوئی انسان اس نیلی چھت کو کبھی چھو نہ سکا ۔ یہ تو خود پروردگار کی مہربانی تھی کہ اس نے ہمیں روشنی بخشی۔ اپنے ہادی اور پیغمبرؑ ہم پہ اتارے۔ اس نے چاہا تھا کہ ایسی ایک مخلوق بنائوں ، ارادہ و اختیار جو رکھتی ہو۔ اپنے ہاتھوں سے آدمی کو اس نے بنایا ۔ شیطان سے اس نے کہا : اے ابلیس اس مخلوق کے تو خلاف ہے ، جسے اپنے ہاتھوں سے میں نے بنایا ہے ؟ اپنے ہاتھوں سے بنانے کی کوئی غرض تو ہوگی ۔ ساری کائنات پروردگارِ عالم کے حکم کی پابند تھی ۔ جبر تھا ۔ اس نے کہا : ایسی مخلوق اب میں بنائوں گا کہ میری عبادت کرے اور اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ ۔ چاہے تو انکار کر دے ، چاہے تو شکر کرے ۔ (پروفیسر احمد رفیق اختر کی ایک گفتگواخباری ضرورت کے مطابق جو از سرِ نو لکھی گئی اور جاری رہے گی )۔