بارش نے مجموعی طور پر پورے ملک کو متاثر کیا ہے مگر جو حشر بارش کی وجہ سے ملک کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ پسماندہ صوبے کا ہوا ہے وہ سندھ کا بھی نہیں ہوا۔ کیوں کہ سندھ میں پھر بھی ایک برائے نام سرکار ہے۔وہ سرکار جو ویسے تو سوتی رہتی ہے مگر جب کسی بھی مسئلے پر میڈیا شور مچاتا ہے تو سائیں سرکار کو مجبور ہوکر اٹھنا پڑتا ہے۔ اس بار کراچی سے ووٹ لینے کے لیے پیپلز پارٹی نے جو گذشتہ دنوں کے دوراں کارکردگی دکھائی وہ قابل تعریف بھی ہے اور قابل تنقید بھی! قابل تعریف اس حوالے سے کہ جب ہم ڈرتے ڈرتے گھر سے نکلے اور شہر کی مرکزی شاہراہ فیصل پہنچے تو وہاں بارش کے پانی کا نام و نشاں تک نہ تھا اور بیشتر علائقوں میں پوری رات پانی نکالنے والے عملے نے محنت کی اور شہر کو بارش میں ڈوبنے سے بچایا۔ اچھا کیا۔ مگر اس عمل پر تنقید اس لیے کی جانی چاہیے کہ یہ عمل ہر دن کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟ جب ایک کام ممکن ہے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم بلدیاتی یا قومی انتخابات کا انتظار کریں؟ اگر کام ہوسکتا ہے تو ہمیشہ ہو سکتا ہے۔ بارش نے اندرون سندھ کو بھی متاثر کیا مگر سندھ کے عوام میں سیاسی شعور ہے اور وہ احتجاج بھی کرتے ہیں اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے لڑتے بھی ہے۔ یہ ایک بہتر عمل ہے۔ اس عمل کی وجہ سے اندرون سندھ بارشوں کے باعث جو نقصان ہوا وہ ہمارے سندھ کے سرحدی صوبے سے کم ہوا۔ بلوچستان کو بارشوں نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان صرف اقتصادی حوالے سے پس ماندہ نہیں ہے مگر ہمارے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پس مانندگی ہر حوالے سے ہے۔ صحت سے لیکر تعلیم تک اور روٹی سے لیکر مکان تک بلوچستان کے عوام مسائل کا شکار ہیں اور ان کے مسائل اب تک حل نہیں ہوئے۔ بلوچستان کے حوالے سے ایک بھرپور مباحثہ ہو سکتا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کی پس مانندگی صرف سرداری سسٹم اور قومپرست سیاست کے پرتشدد عمل کے باعث نہیں ہے۔ اگر یہ دونوں باتیں وہاں موجود ہیں تو ان کے بھی اسباب ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ پوری دنیا میں سرداری یا جاگیرداری موجود تھی۔ مگر دنیا کے ممالک نے اس ضمن میں محنت کی۔ قوانین بنائے اور ان مسائل پر قابو پایا۔ اگر بلوچستان اب تک سرداری سسٹم میں قید ہے اور پر تشدد سیاست نے بلوچستان جو یرغمال بنا رکھا ہے تو اس سے آزاد کروانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کیا امریکہ یا چین آکر بلوچستان کے وجود سے لپٹی ہوئے مسائل کو حل کرے گا؟ چین نے تو خیر سی پیک کے حوالے سے سڑکیں وغیرہ بنائی ہیں مگر سڑک کافی نہیں۔ جب تک اس سڑک پر ترقی کا سفر شروع نہیں ہوتا تب تک سڑک کسی کام کی نہیں ہوتی۔ جب کہ امریکہ کے بارے میں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ چین کی مخالفت میں اور بھارت کی دوستی میں امریکہ نے بلوچستان کے حوالے سے جو کردار ادا کیا ہے اس کو ہم کسی طور پر بہتر نہیں کہ سکتے۔ کیوں کہ امریکہ جب تک افغانستان میں حکمران تھا تب تک بھارت کے لیے پاک افغان بارڈر اپنی سازشی حرکات کے لیے کھلا میدان تھا۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ایک بار پھرپاکستان میں قید بھارتی جاسوس کل بھوشن کی باتیں سن لیں۔ آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ بھارت امریکی تعاون سے بلوچستان میں کیا گل کھلاتا رہا ہے؟ بلوچستان کی تکلیف نئی نہیں ہے۔ بلوچستان کے مسائل بلوچستان جتنے قدیم اور پیچدہ ہیں۔ اس سلسلے میں ہم کو صرف اتنا افسوس ہے کہ بلوچستان کی ترقی کو کبھی فوکس نہیں کیا گیا۔ بلوچستان کی حکومت ان سرداروں کے پاس رہی ہے جن کو اسلام آباد سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے۔ جب کہ سیاست میں جمہوری روایت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم حکمرانی کا سرٹیفکیٹ دینے کا حق اس عوام کو دیں، جس عوام کو آج تک اپنی حکومت خود چلانے کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے ۔ بلوچستان میں یہ محرومی زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے اور اس کی شدت اتنی ہے کہ ہم اس کا اندازہ سندھ اور پنجاب میں بیٹھ کر نہیں کرسکتے۔ بلوچستان کی محرومی صرف شدید نہیں بلکہ وسیع بھی ہے اور اس کی جہت ایک نہیں ہے۔ بلوچستان کی محرومی کبھی کس صورت اور کبھی کس صورت میں ابھر کر آتی رہتی ہے۔ بلوچ عوام جو بہت غریب ہیں اور جن کے لیے پیٹ بھرنا بھی بہت مشکل ہے کہ ان کی حالت گندم کے ان دانوں جیسی ہے جو دو پاٹوں کے بیچ میں پستے رہتے ہیں۔ اس لیے بھگت کبیر نے کہا تھا : ’’چلتی چکی دیکھ کر کھڑا کبیرا روئے دو پاٹوں کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئے‘‘ ایک طرف قانون نافذ کرنے والے بندوقوں کے ساتھ آتے ہیں اور دوسری طرف قانون شکن بندوق بھر کر آتے ہیں اور ان انسانوں کو ستاتے ہیں جو پہلے سے ستائے ہوئے ہیں۔ بلوچستان پر جب بھی کوئی مشکل آتی ہے وہ ان کے لیے زیادہ تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ کیوں کہ وہاں کام نہ کرنے کے سرکار کے پاس بہانے بہت ہیں۔ اس لیے جب بھی بلوچستان کی سنگ ریز زمین زلزلوں کے باعث ہلتی ہے تں مٹی سے بنے ہوئے مکان اپنے مکینوں کی قبریں بن جاتے ہیں۔ اس تکلیف میں بھی ہم نے کبھی کسی حکومت کو بلوچ عوام کی مدد کرنے کے لیے آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بلوچستان بہت بڑی سرزمین کا نام ہے۔ مگر وہاں پانی نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارے ملک کے اس حصے کی زمین اتنی زرخیز ہے؛ جتنا زرخیزی کا تصور علامہ اقبال کے ان الفاظ میں ہے : ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ مگر جب پانی آتا ہے تب تھوڑا نہیں آتا۔ جب پانی آتا ہے تو زیادہ آتا ہے اور شدت کے ساتھ آتا ہے۔ بلوچستان میں سیلاب دریاؤں میں تغیانی کے باعث نہیں بلکہ شدید بارشوں کی وجہ سے آتا ہے۔ کیوں کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑنی والی بارش کا پانی جب نیچے اترتا ہے تو وہ اپنے ساتھ وہ آبادیاں بھی بہا کر لے جاتے ہے جن کو بلوچستان کے عوام بڑی محنت سے بناتے ہیں۔ ان کی ساری محنت پانی میں بہہ جاتی ہے۔ خیر مکان تو پھر بھی بن سکتے ہیں مگر وہ انسان پھر سے زندہ نہیں ہوسکتے جن کی سانسیں سیلابی بارشوں کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہیں۔ قومی میڈیا وہ سب کچھ نہیں دکھا پاتا جو بلوچستان میں ہو رہا ہے۔ ہم صرف اس جنگ کی بات نہیں کر رہے جو گذشتہ بہت سارے برسوں سے جاری ہے۔ ہم اس جنگ میں گرنے والے لاشوں کے بارے میں نہیں لکھ رہے جن کے حوالے متضاد اطلاعات آتے ہیں۔ ہم گرنے والے نہیں بلکہ بہنے والے لاشوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کے بارے میںافسوس کا اظہار کر رہے ہیں جو بندوقوں سے نہیں بلکہ بارشی ریلوں سے مرے ہیں اور ان کی لاشیں نکالنے کے لیے بھی حکومتی سطح پر ریسکیو انتظامات عمل میں نہیں لائے گئے۔ اپنے عزیزوں کی لاشیں لوگ خود نکالتے ہیں۔ اور ان کی تدفین بھی خود کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس کوئی اور مددگار نہیں ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ حکومت کے پاس بہت بہانے ہیں۔ اس لیے ان کو روتی ہوئی آنکھوں اور زخمی ہاتھوں سے اپنے چاک خود سینے پڑتے ہیں۔ کاش! کبھی بلوچستان کے بارے میں کوئی حقائق معلوم کرے اور دیکھے کہ جس طرح کبھی علامہ اقبال نے مسلمانوں کی مظلومیت جو پیش کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘ آج پاکستان میں بلوچوں کے حالات بھی وہی ہیں۔