کراچی اور حیدرآباد والے دو چار برس بارش کی دعا نہیں مانگیں گے۔ سندھ کے دونوں بڑے شہروں کے باسیوں کو بڑا شوق تھا کہ وہ بادلوں کو برستے دیکھیں۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جن شہروں میں بستے ہوئے بارش کی دعا مانگ رہے ہیں وہ شہر لینڈ مافیا اور بلڈر مافیا کی ملی بھگت سے ایسی صورت اختیار کر چکے ہیں کہ بارش کی رحمت ان کی لیے زحمت بن جائے گی۔ گزشتہ دو دن کے دوران ہونے والی بارش نے ان جدید اور پرکشش مکانات اور فلیٹوں کی اصلیت کھول کر رکھ دی جس میں رنگوں اور آرکیٹیکچر کا سنگم تو دکھایا جاتا ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سٹینڈ بائی جنریٹرز کے ساتھ ساتھ فلیٹوں میں کشادہ پارکنگ ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ بارش کی صورت میں نکاسی آب کا انتظام بھی ہے یا نہیں؟ بارشوں سے محروم لوگوں کو یہ خیال ہی کب آتا ہے مگر جب مون سون کا موسم آتا ہے تو پورے نقلی نظام کی قلعی کھل جاتی ہے۔ بارش کے لیے دعا کرنا اور بارش کے بعد بھی شور کرنا تو اہلیان کراچی کی پرانی عادت ہے ۔اس بار بارش کے باعث جس اذیت سے اہلیان حیدرآباد گزرے ہیں وہ صورتحال ملکی میڈیا میں پیش نہیں ہوئی ہے۔ حیدرآباد جس کو ہم ہواؤں اور خوشبوؤں کا شہر کہا کرتے تھے۔ یہ وہ شہر تھا جہاں بارش ہوتی تو مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو دل کو موہ لیتی۔ اب تو حیدرآباد بھی کراچی کی طرح ہو گیا ہے۔ کبھی اس شہر میں فلیٹوں کا تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ اب دیہی آبادی کے دباؤ اور لینڈ مافیا سے ملکر بلڈڑ مافیا نے جو کارنامے سرانجام دیے ہیں ان کے باعث حالیہ بارشوں میں حیدرآباد کا شہر تالاب کا منظر پیش کرتا رہا۔ بارش کو تین دن گزر گئے اور بارش کا پانی پھر بھی نکلنے کا نام نہیں لے رہا ۔ بارش کے پانی نہ نکلنے تک بات محدود نہیں تھی بلکہ بارش کے بعد بجلی چلی گئی اور بجلی نہ ہونے سے پانی غائب ہوگیا۔ اس صوورتحال میں اہلیان حیدرآباد سارے ثقافتی رنگوں اور امنگوں کو بھول گئے جن کے آغوش میں وہ دن رات کھوئے رہتے ہیں۔ دنیا کے ممالک اور ان کے شہر وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ خوبصورت اور سہولیات سے آراستہ ہونے لگتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارے اکثر شہر وقت کے ساتھ اپنا پرانا حسن بھی کھونے لگتے ہیں۔ہم کسی حد تک لاہور کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ اس کے چہرے پر ترقی کی خراشیں کم آئی ہیں۔ اب وہ جنگل اجڑ گیا ہے۔ جس شہر میں ہمیں دن کو بھی جانور نظر آتے تھے اس شہر میں اب رات کو بھی کوئی جانور خال ہی دکھائی دیتا ہے۔ جس شہر کا موسم مثالی حیثیت رکھتا تھا اب وہ شہر فطرت کے دائرے سے نکل گیا ہے۔ اب اس شہر میں بارش ہوتی ہے تو ہوتی ہے اور نہیں ہوتی تونہیں ہوتی۔ حالانکہ ایک وقت ایسا تھا جب اسلام آباد میں پوری رات بادل سونے نہیں دیتے تھے۔اسلام آباد کی طرح اب کراچی بھی ویسا نہیں رہا ،جیسا پہلے تھے۔ ایک جدید ساحلی شہر ایسا ہوتا ہے جیسا اب ہے؟ کبھی تو کراچی کا رخ اس لیے کیا جاتا تھا کہ طبیعت میں پیدا ہونے والی بے چینی ختم ہوجائے۔ ایک وقت ایسا تھا جب کراچی دل کے اکیلے پن کا علاج کیا کرتا تھا۔ اب کراچی سیاحت والا شہر نہیں رہا۔ اب کراچی میں کوئی کام کے بغیر نہیں آتا۔ اس وقت کراچی میں امن امان کی صورتحال قابو میں ہے ورنہ اس شہر نے ایسے مناظر دیکھے ہیں جو ناقابل بیان ہیں۔ یہ شہر اب بدامنی کا مرکز نہیں مگر یہ شہر اب دل لبھانے یا دل لگانے جیسا بھی نہیں رہا۔ اس لیے کراچی میں آنے کا مطلب کسی کام کی مجبوری کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ کراچی کی اس کیفیت سے تنگ آنے والے سندھ کے لوگ جب کراچی کی حدود سے نکلتے تھے تو ایک لمبی سانس لیتے تھے اور حیدرآباد کی حدود میں داخل ہونے سے قبل ہی کہتے تھے کہ حیدرآباد حیدرآباد ہے۔ مگر اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے۔ حیدرآباد کبھی حیدرآباد تھا۔ اب تو دریائے سندھ کے کنارے پر بسنے والا یہ شہر کراچی کا حصہ ہوگیا ہے۔اب اس شہر میں فلیٹوں کی وجہ سے ایسی گٹھن پیدا ہوگئی ہے کہ حیدرآباد کی ہواؤں سے محبت کرنے والے کبھی غصے اور کبھی غم میں کہتے ہیں کہ کیا یہ حیدرآباد ہے؟ جب کوئی پلاننگ نہیں ہوتی اور جب کرپشن کا کلچر عام ہوتا ہے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس شہر میں بھی ایم کیوایم تھی اور ایم کیو ایم ہے مگر اس شہر کی باگ ڈور ہمیشہ حکومت سندھ کے پاس رہی۔ اس شہر میں ہر سندھی وڈیرے کا ایک عدد بنگلہ ہے۔ اس شہر میں ہر وزیر اور مشیر کی ملکیت ہے۔ اس شہر کے بارے پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والے سندھی قوم پرست بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ شہر سندھ کا تاریخی تخت گاہ رہا ہے۔ اس شہر میں سندھی ادب اور ثقافت نے جو ترقی کی اس کی الگ تاریخ ہے۔ اس شہر کو تو سندھ کا مثالی شہر ہونا چاہئیے تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کی گیارہ برس کی حکومت میں اس شہر کا ایسا حشر ہوگیا ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھ دکھتی ہے۔ کراچی میں پلاننگ تو بہت مشکل ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ کراچی کروڑوں لوگوں کا شہر ہے ۔ کراچی اس لیے بھی مشکل شہر ہے کہ اس میں ہر قوم اور زبان کے لوگ بستے ہیں۔ کراچی میں آبادی کے بہاؤ کے باعث ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ اس شہر کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑا وقت اور بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ جب کہ اس کے برعکس حیدرآباد کی صورتحال بالکل الگ ہے۔ حیدرآباد کراچی کی طرح نہیں ہے۔ اگر اس شہر کو پلاننگ کے ساتھ آگے بنایا جاتا تو آج یہ شہر دیکھنے کے قابل ہوتا ۔ اس شہر میں حکومت سندھ کے کرپٹ افراد کے ساتھ مل کر بلڈر مافیا نے ایسے جرائم کیے ہیں کہ اس شہر پر غمگین ناول لکھا جا سکتا ہے۔ یہ شہر جو کبھی علم و ادب اور ثقافت کی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔ اب اس شہر میں صرف حرص ہے۔ اب اس شہر میں دولت حاصل کرنے کے لیے ہر انداز اختیار کرنے کا جو رجحان چل نکلا ہے اس نے اس شہر کو تباہ کردیا ہے۔ حیدرآباد کی تباہی شہروالوں کو اس بار پوری طرح اس وقت نظر آئی جب صرف دو دن بادل برسے اور شہر ڈوب گیا۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ سوشل میڈیا کی معرفت ہمیں جانے پہچانے خاندان اور ان کے مکان پانی میں ڈوبے نظر آئے۔ حیدرآباد میں بارش کے باعث ہنگامی صورتحال کے پیش نظر سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ وزیر بلدیات کے ساتھ گئے مگر وہاں بھی حکومت سندھ نے پانی میں چہل قدمی کرتے ہوئے فوٹوسیشن کروایا۔ حکومت سندھ حیدرآباد کے حوالے سے منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں تھی۔ حیدرآباد میں چار دن تک پانی جمع رہا۔ پانی کے باعث پورے شہر میں بدبو پھیل گئی۔ اس بدبو کو محسوس کرتے ہوئے کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ حیدرآباد ہواؤں اور خوشبوؤں کا شہر ہے؟ حیدرآباد میں بارش کے بعد اب شہری بادل کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں۔ حیدرآباد ایک بہت بڑے تالاب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس تالاب کی سطح آب اس آئینے جیسی ہے جس میں حکومت سندھ اپنی گیارہ سالہ کارکردگی دیکھ سکتی ہے۔ حیدرآباد کے تالاب کو بھرے اب چار دن ہوگئے ہیں۔ ان چار دنوں میں اس تالاب میں مچھلیاں تو پیدا نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے اس تالاب نما شہر کے کنارے پر کھڑے ہوکر کوئی کس طرح پوچھے کہ بول میری مچھلی کتنا پانی؟ البتہ اس سوال کا جواب تالاب کی پانی میں ڈبکیاں کھانے والا شہری دے سکتا ہے۔ اگر حیدرآدباد کے تالاب میں جمع ہونے والے پانی کی گہرائی معلوم کرنی ہو تو مچھلی سے نہیں بلکہ شہری سے مخاطب ہونے کی ضرورت ہے۔ اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ’’بول میرے شہری کتنا پانی؟‘‘