اب بحث چل پڑی ہے کہ اپنے کپتان وزیر اعظم الیکٹیڈ ہیں یا سلیکٹیڈ۔ ہونہار برخوردار بلاول بھٹو انہیں سلیکٹیڈ کہتے نہیں تھکتے۔ ہندی میں اس سے وزیر اعظم کا بڑا اپمان ہو رہا تھا سو اسپیکر قومی اسمبلی نے سلیکٹیڈ کے لفظ کے استعمال ہی پر پابندی لگا دی۔ اچھا کیا کہ اس طرح الیکٹیڈ وزیر اعظم کا وقار مجروح ہونے سے بچ جائے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسی پابندیوں کو کون خاطر میں لاتا ہے۔ بلاول اب بھی سلیکٹیڈ کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے کہ ملک میں جیسی کیسی بھی ہو مگر ہے جمہوریت۔ یادش بخیر جب مسلم عوام نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کے خطاب سے نوازا تو گاندھی جی نے خط لکھ کر پوچھا۔ مائی ڈیئر‘ میں آپ کو آئندہ جناح کہوں یا قائد اعظم۔ قائد سمجھ گئے کہ اس سادہ سوال میں کتنے فتنے چھپے ہیں۔ جواب میں لکھا‘ شیکسپئر کا فقرہ’’گلاب کو چاہے کسی نام سے پکارو‘ گلاب پھر گلاب ہی رہتا ہے۔ ایسا مسکت جواب پا کر گاندھی جی کو چپکی لگ گئی۔ اپنے ملک کی سیاست میں نام بگاڑنے یا نئے نئے القابات سے گزارنے کا آغاز جمہوری روایات پڑنے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔بلکہ آزادی سے پہلے ہی جب مولانا ابوالکلام آزاد کو شو بوائے کہا گیا۔ پاکستان بنا تو حسین شہید سہروردی کلکتہ ہی میں رہ گئے۔ وہاں کے مسلمانوں کو ہندوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ہجرت کر جانا مناسب نہ جانا۔ حالات ذرا معمول پہ آئے تو وہ پاکستان چلے آئے۔ ان کے یہاں آنے سے کچھ لیڈروں کو خطرہ لاحق ہوا لہٰذا انہیں برے القابات سے پکارا گیا۔ صدر ایوب کی اسمبلی میں ان کے بھائی سردار بہادر خاں جو قائد حزب اختلاف تھے‘ اسمبلی ہی میں تقریر کرتے ہوئے ایک ایسا مصرعہ پڑھا جو دیکھتے ہی دیکھے زبان زدخاص و عام ہو گیا۔ مصرعہ یہ تھا ع ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا؟ ہر چند کہ صورت حال تاحال ایسی ہی ہے۔ بھٹو صاحب نے جمہوری سیاست میں قدم رنجہ فرمایا تو مخالف سیاست دانوں کے ایسے ایسے نام رکھے‘ یا ناموں کو بگاڑا کہ توبہ ہی بھلی۔ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کو آلو خان‘ سرحدی سیاست داں خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل‘ خود اپنی پارٹی کے عبدالحفیظ پیرزادہ کو بھرے جلسے میں ’’سوہنا منڈا‘‘ کے لقب سے پکارا۔ میاں ممتاز دولتانہ کو چوہا اور جانے کس کس کو کیاکیا نہ کہا۔ چنانچہ جب بھٹو صاحب کے خلاف قومی اتحاد کے نو ستاروں نے تحریک چلائی تو جوابِ آں غزل کے طور پر ایسے نعرے وضع کئے جو کسی طرح کم ازکم ان پارٹیوں کو زیب نہ دیتا تھا جو نظام مصطفی کو اپنی منزل بتلاتی تھیں۔ ان ہی نعروں میں ایک نعرہ تھا ’’گنجے کے سر پر ہل چلے گا‘‘ ہل قومی اتحاد والوں کا انتخابی نشان تھا۔ اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔ اس دنیا میں آپ جو کچھ بوتے ہیں آخر کو وہی کاٹتے ہیں۔ اب اگر برخوردار بلاول کپتان وزیر اعظم کو سلیکٹیڈ کہنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے نانا جان مرحوم کی پیروی کرتے ہیں۔ یہاں یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ خود کپتان نے انہیں’’محترمہ بلاول صاحبہ‘‘ کہا تھا اور جب اس پر ردعمل کا اظہار شدت سے ہوا تو انہوں نے اعلانیہ معافی مانگ لی۔ بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی کہ جب اپنی غلطی خود پر کھل جاتی ہے تو معافی تلافی میں دیر نہیں لگاتے۔ رہا معاملہ ’’سلیکٹیڈ‘‘ ہونے کا تو سچی بات یہ ہے کہ سلیکٹیڈ اور الیکٹیڈ میں بھلا ایسا فرق ہی کیا ہے۔ دونوں لفظوں کے مفہوم میں ’’چننا‘‘ اور انتخاب کرنا آتا ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری صفحہ499اور صفحہ 1546دیکھ لے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ’الیکٹ ‘کے تیسرے معنی ہی درج ہے‘ رائے دہی کے ذریعے کسی کو منتخب کرنا اس تیسرے معنی کی روشنی میں بھی کپتان منتخب وزیر اعظم تو ہیں کہ کئی حلقوں سے جیتے ہیں اور قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی ممبران اسمبلی نے انہیں ووٹ دے کر وزیر اعظم منتخب کیا ہے۔ تو پھر اس پہ اسپیکر قومی اسمبلی کو برا فروختہ ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جب کسی حسین و جمیل دلہن کو ’’تیری آنکھ ٹیڑھی‘‘ کا طعنہ دیا جائے تو وہ مسکرا کر رہ جاتی ہے کہ جانتی ہے طعنے کے پیچھے کیا ہے لیکن یہ طعنہ کسی ایسی دلہن کو دیا جائے جس کی واقعی آنکھ ٹیڑھی ہو تو وہ ضرور برا مانے گی اور لڑنے بھڑنے کو کھڑی ہو جائے گی۔ اس لئے وزیر اعظم کو سلیکٹیڈ اسمبلی کے اندر کہا جائے یا باہر چینلوں کے کیمروں کے سامنے۔ہمیں اس میں کوئی بات معیوب نظر نہیں آتی۔ اگر اس طرح کہنے سے الیکشن کی شفافیت پر حرف آتا ہے تو بھی وہی بات کہ اگر الیکشن منصفانہ نہ ہوئے ہیں تو چڑنا کیا معنی اور اگر معاملہ برعکس ہے تو پھر الگ بات ہے، پھر تو ضرور برا ماننا چاہیے کہ برا ماننا سیاسی ضرورت بن جاتی ہے۔ زبان ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ ہمارے خیالات‘ احساسات و جذبات کا ذریعہ۔ ہماری جملہ انفرادی اور اجتماعی ضروریات اور تقاضے اسی زبان سے پورے ہوتے ہیں۔ زبان پہ وہی کچھ آتا ہے جو ہمارے اندر ہوتاہے۔ جب تہذیب اور اخلاقی اقدار اپنی سطح اور معیار کھو بیٹھیں تو زبان سوقیانہ کیوں نہ ہو۔ زبان اور استعمال زبان ہی سے ہم کسی کی شخصیت اور اس کی تہذیب و ثقافت کی بابت اندازے قائم کرتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ بولو کہ پہچانے جائو۔ جب تک آدمی چُپ رہتا ہے اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں جونہی بولتا ہے کُھل جاتا ہے کہ جاہل ہے یا عالم مہذب ہے یا غیر مہذب، لائق تعظیم و تکریم ہے یا گفتگو اور مخاطب کرنے کے بھی لائق نہیں۔ یہ بڑی بدنصیبی ہے کہ ہمارے اہل سیاست زبان کی اہمیت‘ اس کی قدرو قیمت اور اس کے مہذبانہ استعمال سے واقف ہی نہیں۔ حکومت کے وزراء ہوں‘ ان کے پارٹی کے رہنما ہوں یا حزب اختلاف کے قائدین۔ یہ حضرات بولتے ہوئے سوچتے نہیں اور بولنے کے بعد بھی نہیں سوچتے۔ یہ جو ہماری سیاست و حکومت کے بازاروں میں جو ایک ہاہا کار سی مچی ہے اور لفظوں کا بے دریغ‘ بے محابہ استعمال ہو رہا ہے۔لفظ سطحی لفظ‘ کھوکھلے لفظ‘ گھٹیا اور گرے ہوئے لفظ‘ دھوکا دیتے ‘ گیدڑ بھبھکیوں سے بھرے ہوئے لفظ‘ چیختے چنگھاڑتے لفظ‘ عیار اور شاطر لفظ۔ یہ جو بازار سیاست میں لفظ‘ لفظ اور لفظ ہی لفظ ہیں۔ لفظ جو اپنا اعتبار اور احترام کھو چکے ہیں۔ اس لئے کھو چکے ہیں کہ خود یہ سارا کھیل سیاست کا بے توقیر ہو چکا ہے۔ سب کہتے ہیں اور سب سمجھتے ہیں کہ سیاست ایک ایسے جوہڑ میں تبدیل ہو گئی ہے جس میں سرانڈکی بُو کے سوا کچھ نہیں۔ جب بھی اس جوہڑ کو شفاف کئے جانے کا خیال آئے گا‘ نہیں بھولنا چاہیے اس کی ابتدا لفظوں ہی سے ہو گی۔ لفظ کا سوچا سمجھا‘ شائستہ اور تہذیب یافتہ استعمال جب تک نہ ہو گا جب تک یہ پتہ نہ چلے کہ ہمارے اہل سیاست کو بات کرنے کی تمیز وتہذیب آ گئی ہے تب تک سیاست کے اصلاحِ احوال کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ جب بازار سیاست کی زبان اور بیان ہی بازاری ہو گئی تو کیا فرق پڑتا ہے کہ وزیر اعظم کو الیکٹیڈ کہا جائے یا سلیکٹیڈ!