ابر اترا ہے چار سُو دیکھو اب وہ نکھرے گا خوب رو دیکھو ایسے موسم میں بھیگتے رہنا ایک شاعر کی آرزو دیکھو بہاولپور سے اتوار کو رات گئے واپس لوٹا تو سارے رستے باران رحمت برستی رہی اور اس وقت جب کہ میں کالم تحریر کر رہا ہوں باہر سے کن من کی آواز آ رہی ہے۔ شکر ہے محکمہ موسمیات کی کوئی تو پیشین گوئی درست ثابت ہوئی کہ سوموار سے بارشیں ہونگی۔ بہرحال دو تین راتیں آنکھوں میں کٹیں اور اب نیند کا ہلکا سا خمار ان آنکھوں میںہے‘‘والد محترم نصراللہ شاہ کی طبیعت کچھ زیادہ ہی ناساز تھی اور وہ بہاولپور قائد اعظم میڈیکل کالج کے کارڈیک سنٹر میں داخل تھے۔ اسی تشویش میں میں اپنی بیگم کو ساتھ لیے وہاں پہنچا۔ میں تو یہاں کا کارڈیک سنٹر دیکھ کر ہی ششدر رہ گیا کہ تعریف تو میں اس کی پہلے ہی سن چکا تھا کہ شہباز شریف کے کارناموں میں ایک یہ بھی ہے اور میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ شہباز شریف کے کارہائے خیر کے لئے رطب السان رہا ہوں۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے۔ پنجاب کے سر پر ان کا احسان رہے گا۔ یہ بھی ہمارے مشرقی نظام او روایات کی خوبی ہے کہ خاندان کا بڑا صاحب فراش ہوتا ہے تو سب کے سب تیمار داری اور عیادت کو چلے آتے ہیں۔ ادھر میرے بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار وہاں پہنچے کہ والد صاحب کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی تھی۔ میں رات کے پچھلے پہر کارڈیک سنٹر کے سی سی یو میں پہنچا تو ابا جی نے مجھے دیکھتے ہی خوشی کا ایسا اظہار کیا کہ میں سرتاپا ایک محبت میں نہا گیا۔ یہ چیز دنیا و مافیا سے ماورا ہوتی ہے۔ متاع بے بہا وہ مسکرانے لگے۔ میں نے کہا ابو آپ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ نورانیت آپ کے چہرے پر ہے۔ کون کہتا ہے آپ بیمار ہیں؟ کہنے لگے توں جے آ گیا ایں۔ میں نے کہا غالب نے بھی آپ جیسی بات کی تھی: ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے فرمانے لگے کہ کچھ ایسے ہی ہے وہاں ان کی خدمت کے لئے میرا بھتیجا علی شاہ موجود تھا۔ ہم نے باتیں شروع کر دیں‘ باتیں شاعری پر تھیں میں نے ابو کو بتایا کہ ان کے لئے درس میں بھی دعا کروائی گئی تھی اور ان سے میں نے ان کے ایک مداح نمازی ریاض صاحب کا ذکر کیا جو مجھے ملتے وقت میرے والدصاحب کی نعت پڑھنے لگتا ہے: تیری میری گل نہیں گل اے حضورؐ دی اکھیاںدے نور دی تے دلاں تے سرور دی گلاں تے ہزار‘ گل اک اے اصول دی شان میرے رب دی تے رب دے رسول ؐ دی میری باتیں سن کر والد گرامی خوشی سے نہال ہو گئے جیسے باران رحمت میں کوئی پیٹر دھل کر لہلہانے لگے وہ جوش و جذبے سے اپنا حمدیہ اور نعتیہ کلام سنانے لگے۔ وہاں موجود دوسرے مریض بھی متوجہ ہو کر خوش نظر آنے لگے ۔ چھوٹے بھائی ثناء اللہ شاہ کا فون آ گیا تو والد صاحب اسے فون پر کہنے لگے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں اور یہاں مشاعرہ ہو رہا ہے اور پھر انہوں نے موبائل واپس پکڑا دیا۔ یہ سب کفیتوں کی باتیں ہیں‘ یہ سب کچھ کبھی کبھی سمجھ میں نہیں بھی آتا۔ چلیے میں آپ کے لئے ان کے سنائے گئے۔ کلام میں سے حمد کا ایک قطعہ تحریر کر دیتا ہوں: شاناں والا رب میرا دلاں وچ وسدا دل جہدا ناں لے کے پھلاں وانگوں ہسدا ہر پاسے رحمتاں دا مہینہ پیا وسدا پتہ پتہ بوٹا بوٹا شان اوہدی دسدا اب کچھ بات کارڈیک سنٹر کی ہو جائے پتہ چلا کہ وہاں کے نامور ڈاکٹر خالد سرور صاحب نے بھائی رضوان حمید قریشی کے کہنے پر والد محترم کو بہت مہربانی کے ساتھ یہاں ایڈمٹ کیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ والد صاحب نے مجھے پہلے ہی بتا دیا کہ یہاں کی نرسیں اور دوسرا سٹاف بہت ہی ہمدرد اور ذمہ دار ہے۔ کارڈیک کے فزیشن شہادت حسین تھے اور وہاں کے سرجن ڈاکٹر اجوت فروغ بھی بہت نامی گرامی ہیں۔میرے دل میں آئی کہ اس کارڈیک سنٹر کے حوالے سے کچھ معلومات لی جائیں۔ میں اسامہ قرشی کو لے کر کر ڈاکٹر روم میں جا گھستا۔ وہاں ینگ ڈاکٹرز تھے تعارف کروانے پروہ بہت مودب انداز میں پیش آئے ینگ میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سید محمد ارسلان مجھے بریف کرنے لگے ڈاکٹر احمد تحسین اور ڈاکٹر عباس بھی وہاں تھے میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان ڈاکٹروں میں ایک سپرٹ اور جنون ہوتا ہے کچھ کر گزرنے کا۔ مجھے ان میں وہی احساس نظر آیا جو مادہ پرست ڈاکٹرز میں ختم ہو چکا ہے یعنی انسانی خدمت کا۔ ڈاکٹر سید محمد ارسلان نے بتایا کہ یہ سنٹر اڑھائی سال قبل شہباز شریف کی کاوشوں کا ثمرہ ہے اس میں 150کے قریب جدید آٹو میٹک آپریٹ کرنے والے بیڈز ہیں۔ یہ تقریبا چار کنال کے قریب جگہ ہے یہاں اپنی لیبارٹری ہے ۔ آئوٹ ڈور میں سینکڑوں مریض آتے ہیں۔ ایمرجنسی بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں کے انچارج ڈاکٹر طارق عباس ہیں جو بہت اعلیٰ شہرت کے حامل ہیں۔ اس سنٹر میں انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کی ساری سہولتیں موجود ہیں واقعتاً میں نے وہاں کی ستھرائی اور صفائی دیکھی تو دنگ رہ گیا۔ مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ کبھی ہم یہیں قائد اعظم میڈیکل کالج کے وسیع لان میں مشاعرہ پڑھنے بھی آئے تھے جو معروف بیورو کریٹ اور دانشور اور اس وقت کے کمشنر شوکت علی شاہ نے کروایا تھا۔ تب اس مشاعرے میں ہمارے دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی بھی موجود تھے جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بہاولپور کے اس باکمال ادارے کا تعلق ادب اور شاعری سے بھی رہا ہے اور ہے۔ وہیں عیادت کو آتے ہوئے بھائی عمران حمید قریشی بلیک بیلٹ سے بھی ملاقات ہوئی اور عدنان قریشی سے بھی۔ وہیں احسان اللہ شاہ بھی تھے ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جس کی طرف ہمارے ظہور دھریجہ صاحب بھی اشارہ کرتے رہتے ہیں وہ ہے الگ صوبے کا مسئلہ ملنے والوں نے پوچھا کہ آخر ہمارا الگ صوبہ کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کے وسیب کا استحقاق ہے اور یہ لوگ اخلاص اور محبت سے بھرے ہوتے ہیں۔ اگر ان کے لیڈر صوبے کو صرف سیاسی سٹنٹ بنانے کے بجائے صوبہ بنوا دیں تو یہ علاقہ بہت ترقی کر جائے۔ اب کالم کا اختتام والد صاحب کے شعر پر کرتے ہیں جو انہوں نے مجھے سنایا: میرے سوہنے رب ہتھ زندگی دی ڈور اے کاہدیاں نیں آکڑاں تے کاہدا سارا شور ہے