مشتاق احمد یوسفی مرحوم نے اپنی شدید خواہش بیان کی تھی کہ زیادہ نہ سہی، کم از کم ایک متروک لفظ ان کی تحریروں سے دوبارہ جی اٹھے! اب سے دور، ایک شخصیت ایسی بھی ہو گزری ہے، جس نے بے شمار نئی ترکیبیں اور اصطلاحیں ہی ایجاد نہیں کیں، کتنے ہی مردہ لفظوں کو بھی جِلایا۔ مولانا ظفر علی خاں ایسے ہی تھے! ان کا روزنامہ "زمیندار" فقط اخبار نہیں تھا، صحافت کے ساتھ ساتھ، یہ شعروادب کی بھی ٹکسال تھا! "ہونٹوں نکلی، کوٹھوں چڑھی" ہم نے سنا تھا۔ زمیندار نے یہ کر کے بھی دکھا دیا! کتنی ہی نئی ترکیبیں اور اصطلاحیں، اس دارالضرب سے ڈھل کر نکلیں اور سکہ رائج الوقت ہو کر رہیں۔ ناظرین سے وعدہ کیا گیا تھا کہ لفظ "بونگا" کی حیات ِنو کا واقعہ بیان کیا جائے گا۔ یہ لفظ مدت سے متروک چلا آ رہا تھا۔ پھر ہوا یہ کہ کسی تقریب سے، مولانا ظفر علی خاں لاہور تشریف لا رہے تھے۔ ان کے استقبال کے لیے، نوجوانوں کا ایک جیش گوجرانوالہ سے، پیدل چل کر جلسہ گاہ پہنچا۔ جیش کے سربراہ حکیم عبدالمجید تھے۔ مولانا نے اپنے خطاب کے دوران انہیں مخاطب کر کے، پیار سے کہا۔ "حکیم صاحب! آپ بھی عجیب بونگے ہیں"۔ اس طرح یہ متروک اور مردْود لفظ، دوبارہ جی اٹھا! اَور سنیے۔ پارٹی بدلنے والوں کے لیے ہندی کی ایک ترکیب "بے پیندے کا بدھنا" چلی ہوئی تھی۔ کرنی خدا کی یہ ہوئی کہ ڈاکٹر محمد عالم نامی بزرگ نے بھی، ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس پر مولانا نے اْن پر ڈاکٹر"لوٹا" کی پھبتی چست کر دی۔ اس طرح، لوٹا کا لفظ نہ صرف ڈاکٹر عالم کے نام ِنامی اور اسم ِسامی کا جْزو بن گیا، اردو کو بھی ایک بے بدل اصطلاح ہاتھ آ گئی۔ رہی سہی کسر مولانا چراغ حسن حسرت نے "دو ڈاکٹر" لکھ کر پوری کر دی۔ ارتجالا اور فی البدیہہ شعر کہنے والے، دوسرے بھی ہوئے ہیں لیکن اس میدان میں، سودا کے سوا، کوئی دوسرا مولانا کے مقابل نہیں ہوا۔ سودا "اے غنچہ! ذرا قلم دان تو لائیو" کِہ کر رواں ہو جاتے تھے، مگر وہ بھی مولانا کے بعد ہیں! ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر بڑے شریر آدمی تھے۔ ایک دفعہ کسی تقریب میں مولانا ظفر علی خاں کو انہوں نے بحیثیت ِصدر مدعو کیا۔ انہیں ڈائس پر بلا کے، تاثیر صاحب نے شرارتا اعلان کر دیا کہ مولانا آج فلاں نہایت کْڈھب زمیں میں، پوری غزل لکھ کر لائے ہیں، پہلے وہ سْن لیتے ہیں۔ مولانا وقار اور متانت سے چلتے ہوئے ڈائس پر آئے، جیب سے کاغذ نکالا اور نو شعروں کی نہایت ٹھْکی ہوئی ایسی غزل اس اَدَق زمین میں سنائی کہ سارا مجمع، داد سے گونجنے لگا۔ اس دوران تاثیر صاحب کے چہرے پر انفعال دوڑتا رہا۔ غزل سنا کر مولانا، تاثیر صاحب کے پاس آئے اور کاغذ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ انہوں نے کاغذ کی تہیں جب کھول کر دیکھا تو وہ بالکل سادہ تھا۔ تاثیر کے ماتھے سے پسینے کی بوندیں بہنے لگیں! مولانا بے انتہا دلیر، بے جگر اور حق گو تھے۔ جب پہلی دفعہ وہ لندن گئے تو واپسی پر، پہلے مضمون کا عنوان، یہ شعر بنایا۔ چار چیز است تحفہ لندن خَمر و خِنزیر، روزنامہ و زَن اخبار ضبط کر لیا گیا۔ اقبال کے "اہل ِایمان" کی طرح، "زمیندار" کی بھی حالت یہی رہی کہ ع اِدھر ڈْوبا اْدھر نکلا، اْدھر ڈوبا اِدھر نکلا مولانا کے کسی اداریے سے برافروختہ ہو کر، صاحب بہادر نے ضمانت طلب کی تھی۔ مولانا نے اگلے روز، وہی ایڈیٹوریل اس نوٹ کے ساتھ، دوبارہ چھاپ دیا۔ "یہ ہے وہ اداریہ، جس پر "زمیندار" سے ضمانت طلب کی گئی ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ اس میں ایسی کیا بات تھی؟"۔ سینسر کی قینچی چلی تو مولانا نے لیڈر کی جگہ، خالی چھوڑ کر، سیاہ حاشیے کھینچ دیے۔ بیچ میں یہ شعر تھا۔ میرے اس لیڈر پہ ہے چشم ِعنایت اس قدر نقطہ نقطہ، شوشہ شوشہ، نذر ِسینسر ہو گیا مولانا کا چلایا ہوا ایک اور لفظ "ٹوڈی" تھا۔ یہ لفظ انگریزوں کے دیسی ایجنٹوںاور چاپلوسوں کے لیے استعمال کیا جاتا۔ سب سے پہلے "ٹوڈی" ڈاکٹر نارنگ تھے۔ ان کے بارے میں، اس طرح کی خبریں سامنے آئیں کہ وہ انگریزوں کے مخبر ہیں۔ اس پر مولانا نے ایک نظم لکھی، جس کا عنوان اور، غالبا، ٹیپ کا مصرع تھا ع ڈاکٹر نارنگ ٹوڈی ہو گئے ڈاکٹر صاحب اس کے بعد، "جانبر" نہ ہو سکے! آئیے، اب ذرا امریکہ چلتے ہیں، جہاںامریکن ٹوڈیوں نے خوب اودھم مچایا ہوا ہے۔ ڈیموکریٹ، جو یہاں کے بائیں بازو والوں کی جماعت ہے، چند ہفتے پہلے تک خوشی کے شادیانے بجا رہی تھی کہ ہماری بدولت، پہلی مرتبہ، مسلمان خواتین بھی کانگرس کی ممبر بن گئی ہیں۔ اب ان خواتین میں سے ایک، الہان عْمر شدید تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ ہوا یہ کہ الہان عْمر نے پانچ چھے روز پہلے، یہ ٹویٹ لکھی تھی کہ امریکن سیاسی لیڈر، اسرائیل کی حمایت، صرف پیسوں کی خاطر کرتے ہیں۔ آزادی ِاظہار کا یہ "بنیادی حق"، پوری کانگرس کو گراں گزرا اور ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں الہان عْمر کے بیان کی مذمت کی گئی۔ اس میں پیش پیش، خود الہان کی جماعت کی لیڈر اور کانگرس کی اسپیکر نینسی پلوسی ہیں۔ امریکن سیاست دانوں کے "ٹوڈی" ہونے پر اگر شک ہو، تو یہ ایک واقعہ سْن لیں۔ سب جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کبھی کسی کا "اْدھار" باقی نہیں رکھا۔ جس نے ذرا سی بھی ٹیڑھی یا طنزیہ بات کی، ٹرمپ اسے "استحقاق" سے زیادہ ہی لتاڑ آئے۔ صرف ایک آدمی ایسا ہے، جو ٹرمپ کی بے عزتی کر کے بھی، ان کا ممدوح ہے۔ یہ ہے اسرائیلی وزیر ِاعظم بینجمن نتن یاہو! صدارتی انتخابات کے دنوں میں، ٹرمپ نے اسرائیل کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن نتن یاہو نے ٹکا سا جواب دے دیا تھا۔ اس پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ٹھیک ہے۔ اب میں صدر بن کر اسرائیل آئوں گا! اسرائیل کا دورہ ہوا، مگر اس ہیئت کذائی کے ساتھ کہ گویا بانہوں میں بانہیں ڈلی رہیں۔ ٹرمپ کی مثال اس لیے دی گئی کہ ان کی "پٹھنولی" دوسروں سے زیادہ سریع الاشتعال ہے! بیشتر تو کسی شمار قطار میں آتے ہی نہیں۔ رہیں نینسی پلوسی، تو ان کے خلاف چند ہفتے پہلے تک زبردست تحریک چل رہی تھی کہ نہ منہ میں دانت، نہ پیٹ میں آنت۔ سیاست کی جان کب چھوڑو گی؟ نینسی پلوسی ارب پتی ہیں اور عْمر ان کی اسی کے قریب ہے! لیکن حرص و ہوس کا آخری اور شاید انتہائی مرحلہ وہی ہے، جو غالب کو بھی درپیش تھا۔ یعنی گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دَم ہے! رہنے دو ابھی ساغر و مینا مِرے آگے