اداروں میں زوال اچانک ایک دن نہیں آتا۔کئی نسلیں اصول و قواعد کے ستونوں کی اینٹیں اکھاڑتی رہتی ہیں اور پھر ایک دن عمارت دھڑام سے نیچے آگرتی ہے۔ جو کوئی بھی قاعدے اور اصول کی اینٹ اکھاڑتا ہے اس کے پاس دل کو تسلی دینے کے لیئے بہت قوی دلیل ہوتی ہے۔ مثلاً، قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والی وکلاء برادری ، سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیاںجانتی ہیں کہ اس فیصلے نے آئین و قانون و انصاف کے ستونوں کی وہ بنیادی اینٹ ہی اکھاڑ دی ہے جس کے مطابق ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ’’زیر کفالت‘‘ کی تعریف بدل کر رکھ دی ہے۔ اس فیصلے کے بعدعدالتی طور پر خاندان اب ایک ایسا ادارہ ہے جہاں میاں بیوی اور بچے ایک چھت تلے جمع تو ہیں، لیکن ایک قانون کا محافظ باپ ، اغوا برائے تاوان والا بیٹا یا رشوت خور بیوی ایک ساتھ رہتے بھی ہوں ،پھر بھی ایک دوسرے کے ذرائع آمدن کے بارے میں انہیں علم ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی خاندان کے کسی فرد سے کسی دوسرے کی آمدن کے بارے میں سوال کیاجا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جو ایک قانونی نظیر (Precedent) ہے ، اس فیصلے کے بعد ایک بددیانت ترین بیوروکریٹ جس کی بیوی ایک عام سی پرائیویٹ نوکری کرتی ہو مگر اس نے ’’کمال محنت اور سگھڑپن‘‘ سے بہت بڑی جائیداد بنائی ہو تو آپ ایسے بیوروکریٹ سے یہ سوال نہیں پوچھ سکیں گے کہ ’’کہیں یہ پیسہ آپ کی کرپشن کا تو نہیں‘‘ اور بیوی سے تو پوچھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکیونکہ وہ تو سرکاری نوکری سے آزادہے۔ ایک بددیانت بیوروکریٹ، کرپشن میں لتھڑا ہوا وزیر، جائیدادیں بنانے والا جرنیل، اب کسی بھی عدالت میں یہ والا فیصلہ لہرا کر اپنے لیے عدالتی زبان میں ’’ریلیف‘‘ (Releaf)حاصل کرسکتا ہے۔ مگر جنہوں نے سپریم کورٹ سے ایسا فیصلہ حاصل کرنے کے لیے قانونی اور سیاسی جدوجہد کی، ان کے پاس اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے بے شمار دلیلیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ایک معزز جج کی عزت وناموس کا تحفظ ہوا ہے۔ ان کے نزدیک یہ کیس بنایاہی اس لیے گیاتھاکیونکہ ایک جج نے اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کیا تھا۔ اگر آج جسٹس فائز عیسیٰ کی بیوی سے اس کی جائیدادوں کے بارے میں اس بنیاد پر سوال پوچھا گیا کہ وہ ایک جج کی بیوی ہے تو پھر یہ سلسلہ چل نکلے گا اور ہر جج کے سر پر مسلسل تلوار لٹکتی رہے گی۔ ایسا سب کچھ اچانک نہیں ہوگیا۔ گذشتہ چالیس سال کی تاریخ اس زوال پر گواہ ہے۔ اس تاریخ میں سے کم از کم تیس سال ایسے ہیں جومیںنے اس نظامِ انصاف کی چھت تلے یا اس کے آس پاس گزارے ہیں۔ ٹھیک تیس سال قبل جنوری 1991ء میں میری تعیناتی ڈپٹی سیکرٹری فنانس حکومت بلوچستان ہوئی۔ ان دنوں حکومت نے سیکرٹریٹ کے ملازمین کو ریلیف دینے کے لیے بیس فیصدسیکرٹریٹ الاؤنس دینے کا آغاز کیا۔ معاملہ یہ تھا کہ فیلڈ پوسٹنگ میں گھر، گاڑی، نوکر چاکر اور دیگر کروفر میسر ہوتا ہے اور سیکرٹریٹ میں یہ سب کچھ نہیں ملتا۔ اس الاؤنس کا مقصد اس صعوبت (Hardship) کا مداوا کرنا تھا۔ اسی لیے سیکرٹریٹ کی عمارت کی سڑک کے پار کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی وغیرہ کے ملازمین کو یہ الاؤنس نہیں ملتا تھا۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے ملازمین بھی سٹرک کے اس پار ہی تھے۔ ایک دن عدالت میں رجسٹرار نے ایک رٹ پٹیشن داخل کی کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، نوکری بھی ایک جیسی ہے ،اس لیے ہائی کورٹ کے ملازمین کو بھی سیکرٹریٹ الاؤنس ملنا چاہیے۔ ایک گھنٹے کے اندر فیصلہ صادر ہو گیا۔ کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ میں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے کوئٹہ کے وکلا ء سے رابطہ کیا۔ بڑے بڑے انصاف کے علمبردار اور عدلیہ بحالی کے چیمپئن اس وقت موجود تھے، لیکن کوئی ایک وکیل بھی ہائی کورٹ کے ملازمین کے خلاف کیس لڑنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ ادھر چیف جسٹس نے اکاؤٹنٹ جنرل کو عدالت میں بلا لیا اور کہا کہ اگر اس مہینے کی تنخواہوں میں سیکرٹریٹ الاؤنس نہ لگا تو میں تمہیں توہینِ عدالت میں جیل بھیج دوں گا۔ میں وکیل ڈھونڈنے کے لیے لاہو رآیا۔ بیوروکریسی کی پوری طاقت ، ذاتی تعلقات، وکیل کے پیشے کی دہائیاں کہ ’’آپ تو قاتل کا بھی کیس لڑتے ہو‘‘، میرے کسی کام نہ آسکیں اور میں ناکام و نامراد کوئٹہ واپس لوٹ گیا۔ انصاف کے ستون سے یہ پہلی اینٹ تھی جو میں نے اپنے سامنے گرتے ہوئے دیکھی، جسے بار اور بینچ مل کر اکھاڑ رہے تھے، لیکن دونوں کے پاس اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے لاتعداد دلائل موجود تھے۔ نظامِ انصاف کی تباہی دراصل اس واقعے سے بہت پہلے شروع ہوچکی تھی، لیکن میرے لیے یہ ذاتی حیرت تھی جس میں مجھے زوال کی داستان نظر آرہی تھی۔ اس کے بعد دوسرا ذاتی تجربہ 2004 میںہوا، جب میں پنچاب میں محکمۂ آثار قدیمہ میں ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوا۔ میرا دفتر ہائی کورٹ کے بالکل ساتھ تھا۔ ایک دن اس کی کھڑکی سے میں نے دیکھا کہ ہائی کورٹ کی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک عمارت گرائی جا رہی ہے۔ بحیثیت ڈی جی آرکیالوجی یہ میری قانونی ذمہ داری تھی کہ میں اس کا تحفظ کروں۔معلوم ہوا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے دماغ میں یہ سمائی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی تمام عمارتیں گرا کر ازسرِ نو تعمیر کی جائیں۔ انہوں نے چیمبر میں سیکرٹری تعمیرات کو بلایا اور صفحۂ مثل پر یہ آرڈر کر دیا۔اس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے روز اس کی پیشی ہورہی تھی ،ایک دن بلایا اور کہا، گرانا شروع کرو ورنہ توہین عدالت میں اندرکر دوں گا۔ میں نے رجسٹرار کو خط تحریر کیا، کہ ’’عالی مرتبت‘‘ چیف جسٹس کے نوٹس میں یہ بات لائیں کہ جس طرح اس عمارت میں بیٹھ کر انصاف فراہم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، اسی طرح اس عمارت کی ایک ایک اینٹ ، اس کے قدیم حسن اور ورثے کا تحفظ میری ذمہ داری ہے۔ اس کا بہت سخت جواب مجھ تک پہنچایا گیا تھا کہ ’’نوٹس‘‘ تو ہم خود لیا کرتے ہیں، اپنی حد میں رہو۔ چیف جسٹس کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے میں نے لاہور میں وکیل ڈھونڈنے کی کوشش کی، لاہور کے باشعور لوگوں کے ذریعے مہم چلوائی، کالج کے طلبہ کو اس عمارت کو بچانے کے لیے اکسایا۔ نیشنل کالج آف آرٹس اس میں پیش پیش تھا۔ اس کی پرنسپل فوزیہ قریشی کے ساتھ میں خود پہلی اور آخری دفعہ عاصمہ جہانگیر کے چیمبر میں گیا۔ غصہ اپنی جگہ ، ججوں کو ملامت اپنی جگہ ،لیکن کوئی میرے ساتھ سپریم کورٹ چلنے کو تیار نہ ہوا۔ لیکن خوش بختی یہ ہوئی کہ عوامی دباؤ اسقدر بڑھا کہ احمد اویس اس مقدمے کی پیروی کیلئے مدتوں بعد تیار ہوگئے، مگر اب اتنی دیر ہو چکی تھی کہ ہائی کورٹ کی ایک عمارت زمین بوس ہو چکی تھی ۔ یہ دونوں واقعات اس دور کے ہیں جب جوڈیشل ایکٹوازم نے ابھی انگڑائی بھی نہیں لی تھی۔ لیکن آج تیس سال کے بعد عدالتوں سمیت اس ملک کے تمام اداروں کی عمارتیں ایک ایک کرکے دھڑام سے گر تی چلی جا رہی ہیں۔ مجھے اس توڑ پھوڑ میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔یہی امید مولانا روم کے اس شعر میں پوشیدہ ہے جسے اقبال اپنے بیشمار سوالوں کا جواب سمجھتے تھے ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند اوّل آں بنیاد را ویراں کنند ترجمہ:’’ اگر تم چاہتے ہو کہ ایک نئی عمارت تعمیر کی جائے تو اس کے لئے پہلی عمارت کو بنیاد سے مسمار کرنا ضروری ہے‘‘۔ ہمارے پورے معاشرے کی بنیادیں مسمار ہو رہی ہیں۔ ہونے دو، آنے والا کل نئی عمارت کی تعمیر کی نوید لے کر آئے گا۔