کوئی بھی قوم جب اجتماعی طور پر بدعملی‘ بداخلاقی اور بے راہ روی کا شکار ہوتی ہے تو تباہی و برباد ی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ مہذب معاشرے اپنی بقا کے لئے نئی نسل کی اخلاقی تربیت سے صرف نظر نہیں برتا کرتے۔ سویڈن کے ایک چھوٹے سے قصبے میں مارچ کی یخ بستہ سردی میں ایک 13برس کی لڑکی نے ٹرین کے آگے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ بظاہر یہ خودکشی کا معمول کا واقعہ تھا مگر اس زندہ قوم نے اس ایک بچی کی موت کو سویڈن کے مستقبل کی موت تصور کرتے ہوئے خودکشی کے اسباب جاننے کے لئے تحقیقات کا آغاز کیا تاکہ مستقبل میں بچوں کو اس انتہائی اقدام سے روکا جا سکے۔ سویڈن کی پولیس نے تحقیقات کا آغاز لڑکی کے گھر سے کیا اور اس کے کمپیوٹر کو ڈی کوڈ کر کے بچی کی ذاتی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی۔ تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا کہ بچی کو کوئی لڑکا کچھ دنوں سے مسلسل بلیک میل کرکے اس سے برہنہ تصاویر بھیجنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ بصورت دیگر اس کی گفتگو کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ پولیس نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو لڑکا درحقیقت ایک 44برس کا ادھیڑ عمر شخص نکلا۔ پولیس کو یہ بھی پتہ چلا کہ یہ شخص 20دیگر کم سن بچیوں کو آن لائن بلیک میل کر چکاہے۔ اس ایک واقعے کے بعد سویڈن میں بچوں کو سکول میں خصوصی تربیت اور والدین میں شعور اجاگر کرنے، بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے آگاہی مہم سمیت متعدد اقدامات کئے گئے تاکہ بچوں کو انٹرنیٹ کے مضمرات سے بچایا جا سکے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 18سال سے کم عمر 71فیصد بچوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ انٹر نیٹ واچ فائونڈیشن نے صرف ایک سال کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو ابھارنے والے مواد پر مشتمل ایک لاکھ پانچ ہزار سے زائد ویب سائٹس کا پتہ لگایا ہے۔ اقوام متحدہ رکن ممالک کو اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کے تحت ایسے ادارے یا وزارت تشکیل دینے کا پابند کر چکی ہے جو آن لائن سیفٹی کی ذمہ داری لے۔Malin Jolebyمالن جولیبی نے اپنے مضمون میں (OECD)کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 15سال سے کم عمر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 70فیصد بچے روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے 26فیصد دن میں چھ گھنٹے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ معروف ماہر نفسیات ایرک ایج ایرکسن کی تحقیق کے مطابق 10فیصد بچوں کو فحش تصاویر کے ذریعے ورغلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جون2018ء میں نکولا ڈیویز نے Abused Child to Serial Killerکے عنوان سے جنسی تشدد اور سیریل کلرز کے درمیان نفسیاتی پہلوئوں بارے تحقیقاتی مقالہ لکھا جس کا نچوڑ یہ ہے کہ بچپن کے نفسیاتی حادثات سنگل پیکیج میں نمودار نہیں ہوتے۔ نکولانے 50سیریل کلرز کے عدالتی ریکارڈاور انٹرویو کے ذریعے محرکات جاننے کی کوشش کی۔ انٹرنیٹ پر 2018ء میں جنسی اشتہا پر مبنی 45 ملین ویب سائٹس اپ لوڈ کی گئیں۔ ایرک کی تھیوری کے مطابق بچوں کو بلوغت کے دوران شناخت کی تشکیل کے مرحلے سے واسطہ پڑتا ہے جس کے جسمانی نفسیاتی اور سماجی پہلو ہوتے ہیں۔ یہی وقت ہوتا ہے جب بچے میں رومانوی جذبات اور تعلقات کی خواہش اپنے عروج پر ہوتی ہے اور اسی دوران انٹرنیٹ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور بچے نہ صرف جنسی بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ادھیڑ عمر کے افراد کے بہکاوے میں بھی آ جاتے ہیں۔پاکستان کا شمار بچوں سے جنسی زیادتی کے حوالے سے دنیا کے 10بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔بچوں کے لئے کام کرنے والے ادارے ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتاہے۔2017ء میں 1764بچے حیوانیت کا شکار ہوئے جبکہ 2018ء میں یہ تعداد 4139تک پہنچ گئی۔ انٹرنیٹ کی ہلاکت خیزی کا عالم یہ ہے کہ بچوں سے زیادتی کے بعد قتل کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 90ء کی دہائی میں شاید پہلی بار جاوید اقبال نامی درندہ صفت شخص گرفتار ہوا جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کرکے ان کی باقیات تیزاب میں تحلیل کر دیتا تھا ۔مگر مستقبل کے لئے کوئی پیش بندی نہ ہوئی۔ اس کے بعد قصور میں معصوم بچی زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا ملزم عمران گرفتار ہوا تو تحقیقات کے دوران اس درندہ صفت انسان نے خود100 بچوں سے زیادتی کے بعد قتل کا اعتراف کیا۔ اس کے بعد قصور کے گردونواح میں 250بچوں سے زیادتی کی اطلاعات آئیں اور پہلی بار میڈیا میں ڈارک ویب کا بھی غوغا ہوا۔ زینب کے کیس کے دوران ڈارک ویب پر بچوں کی پورنو گرافی کے انکشافات سامنے آنا شروع ہوئے۔برطانوی ریسرچر ڈینل مورے اورکنگز کالج کے تھامس ریڈ نے 2015ء میں ڈارک ویب میں محض 5ہفتوں میں 2723سائٹس کی نشاندہی کی جن پر 57فیصد مواد غیر اخلاقی تھا ۔ان کے نزدیک ڈارک ویب دنیا بھر کے مجرموں کو منشیات اسلحہ اور بچوں سے زیادتی اور قتل کی فحش ویڈیوز کے کاروبار کا سب سے محفوظ ذریعہ ہے۔ یہاں آپ کمپیوٹر ہیکرز سے لے کر عالمی بنکوں کے کریڈٹ کارڈ خرید سکتے ہیں۔500ڈالر میں 2500ڈالر کریڈٹ والے سات ڈیبٹ کارڈ فروخت ہوتے ہیں ایک تحقیق کے مطابق صرف 2010ء میں ڈارک ویب کے ممبران میں 20فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اگر حکومت نے ان انکشافات کے بعد معاملہ دبایا نہ ہوتا تو شاید چونیاں میں 4بچوں کے بہیمانہ قتل کا صدمہ نہ برداشت کرنا پڑتا۔ زینب کیس میں سابق وزیراعلیٰ نے مجرم عمران کی گرفتاری پر فتح کے ڈنکے بجائے مگر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران کو پھانسی پر لٹکا کر معاملہ کو دبانے کی کوشش کی گئی۔13اپریل 2017ء کو پاکستان میں ناروے کے سفارت خانے کی اطلاعات پر حکومت نے سرگودھا سے سعادت امین نامی شخص کو بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز ملک سے باہر فروخت کرنے کے الزام میں بھی گرفتار کیا اور اس کے لیپ ٹاپ سے بڑی تعداد میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو ایف آئی اے نے ڈی کوڈ کیں۔ جنوبی ایشیا میںاسی طرح کا پہلا کیس بھارت میں سامنے آیا تھا جس میں ممبئی میں ایک بچی کو زیادتی کے بعد اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا اور اس عمل کی لائیو سٹریمنگ ڈارک ویب پرکی گئی۔ پاکستان میں بھی زینب کیس کے بعد ڈارک ویب بارے مختلف انکشافات ہونا شروع ہوئے مگر حکومت نے اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ کو دبانے کی کوشش کی۔ یا کم از کم دانستہ صرف نظر سے کام لیا۔یقینا تحقیقات اور منصفانہ عدالتی کارروائی کے بعد سہیل شہزاد بھی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا مگر سہیل کو پھانسی محض ایک مجرم کی موت ہو گی جرم زندہ رہے گا ۔وزیر اعظم نے مستقبل میں اس قسم کے انسانیت سوز واقعات سے بچنے کے لئے نفسیاتی تحقیقات کی ہدایت کی ہے مگر کیا ہمارے نظام میں یہ ممکن ہے حکومت چاہے تو مغربی ممالک میں ہونے والی ریسرچرز سے استفادہ کر سکتی ہے۔ مجرم ختم کرنے سے جرم ختم نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے مستقبل کو وحشی درندوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں کچھ کرنا ہو گا یہ ممکن نہیں کہ بارود کو آگ بھی دکھائی جائے اور بچائو کے جتن کرکے دل بھی بہلاتے رہیں۔