اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر وفاق کے تمام تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد فوری طور پر روکنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کئی سرکاری و نجی سکولوں میں بچوں پر تشدد کی رپورٹیں آتی رہی ہیں اور بعض واقعات میں توبچوں کے ہاتھ پائوں توڑ دیے جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں پر تشدد سے تشدد ہی جنم لیتا ہے۔ اوائل عمری میں تشدد کا شکار بچے معاشرے کے مفید شہری بننے میں ناکام رہتے ہیں اوراکثر اوقات تشدد بچوں کو تعلیم سے متنفر کر دیتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں پر تشدد سے بچوں کی دماغی اپروچ بھی متاثر ہوتی ہے‘ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو معاشرے میں ان کے کردار کا تعین کرتا ہے‘ تعلیمی ادارے سے ملنی والی سوچ اس کی عملی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے‘ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کے لئے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ضابطہ اخلاق بنایا جائے ‘اس پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور جو تعلیمی ادارے اس ضابطہ اخلاق کی پابندی نہ کریں ان کے خلاف نہ صرف قانونی کارروائی کی جائے اور انہیںتعلیم دینے سے روک دیا جائے ۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو گھروںمیں بھی شفقت آمیز اور غیر متشدد ماحول فراہم کریں تاکہ ان کے مستقبل کی آبیاری بہتر طریقے سے ہو سکے۔