لاہور شہر میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں معمول بنتی جا رہی ہیں اوردو روز کے دوران دو بچے اغوا ہو چکے ہیں لیکن ان کی بازیابی کے حوالے سے پولیس کی کارکردگی صفر ہے۔ گلشن راوی کے 5سالہ سعد کا ابھی سراغ نہیں ملا تھا کہ مصطفی آباد کے 12سالہ عمار کو سکول جاتے ہوئے اغوا کر لیا گیا۔ سعد کو اغوا کرنے والی خاتون کی ویڈیو بھی مل چکی ہے لیکن پولیس اس کا ابھی تک سراغ نہیں لگا سکی۔ 30 گھنٹوں کے دوران اغوا کی یکے بعد دیگرے ہونے والی ان وارداتوں کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اغوا کی وارداتوں کو روکنا قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس کی ذمہ داری ہے‘ دو روز میں اغوا کی دووارداتوں سے پولیس کی غفلت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ شہرکے تمام خارجی داخلی راستوں پر چیکنگ کا نظام موثر بنایا جائے اور مشکوک گاڑیوں کو چیک کیا جائے ‘ شہر بھر میں خصوصاً گنجان آباد اور تنگ گلیوں والے علاقوں میں پولیس کا گشت بڑھایا جائے‘ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، وہ چھوٹے بچوں کو اکیلا نہ چھوڑیں اور پارکوں میں لے جاتے وقت بھی ان کے ساتھ رہیں۔ بچوں کو گھروں سے سکول اور سکول سے گھروں تک محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کریں۔