قومی اسمبلی نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی طرف سے پیش کردہ قرار داد منظور کر کے بچوں اور بچیوں سے زیادتی اور انہیں قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی تجویز دی ہے۔ قرار داد منظور ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ قومی اسمبلی سے بچوں کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو مثالی سزا کی قرار داد کی حیرت انگیز طور پر بعض حکومتی وزراء نے مخالفت کی ہے۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اس کو انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کہا‘ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق اس قرار داد کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک انفرادی عمل تھا۔ وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم نے قرار داد کی مخالفت میں بیان جاری کیا کہ ماضی میں سپریم کورٹ سرعام پھانسی کو غیر آئینی و غیر اسلامی قرار دے چکی ہے لہٰذا اس پر قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ بچے کسی ملک نہیں بلکہ معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ مستقبل کا معمار کہلانے والوں کو مہذب معاشروں میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ کسی ملک کا قانون اور نظام اگر کسی خاص طبقے کو تحفظ فراہم نہ کر سکے تو مظلوم طبقہ سڑکوں پر احتجاج کرتا ہے‘ پارلیمنٹ میں اپنے حقوق غصب ہونے پر واویلا کرتا ہے اور حکومت پر دبائو ڈالتا ہے کہ اس کے مطالبات تسلیم کرے۔ تاجر‘ کلرک‘ اساتذہ ‘ مزدور ‘ ڈاکٹر اور قانون دانوں کے احتجاجی مظاہروں کے سامنے کئی بار حکومتوں کو جھکتے دیکھا گیا۔ بچے لڑ نہیں سکتے‘ وہ اپنے حق میں کوئی تحریک نہیں چلا سکتے ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2019ء کے سال میں 729بچیوں اور 575بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ۔ ان میں سے 378بچوں کو اغوا کیا گیا‘139سے زیادتی کی گئی‘46کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی۔ بچوں کے خلاف جرائم پر کام کرنے والی تنظیم ساحل نے سال 2018ء میں ایک بچوں کے خلاف جرائم کے متعلق ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایک سال میں پولیس کو 3307واقعات کی اطلاع دی گئی۔ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ سماجی اور انتظامی مشکلات کے باعث سینکڑوں واقعات رپورٹ نہیں ہو سکے۔ایک دوسری رپورٹ بتاتی ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی جرائم کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ صرف 2019ء میں 1304مقدمات میں سے 614میں ملزمان نے مظلوم بچوں کے لواحقین سے راضی نامہ کر کے خود کو قانونی کارروائی سے بچا لیا۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات ملک کے لگ بھگ ہر علاقے میں ہو رہے ہیں تاہم اس سلسلے میں قصور سے جو واقعات رپورٹ ہوئے انہوں نے ہر درد مند شہری کو صدمے کا شکار بنایا۔ پہلے حسین خان والا سے زیادتی کی ویڈیو بنانے والے گروہ کی اطلاع آئی‘ پھر قصور شہر میں کمسن بچے بچیوں کے ساتھ درندگی کے واقعات رپورٹ ہونے لگے۔ننھی زینب بھی ان مظلوموں میں سے ایک تھی۔ چند ماہ قبل چونیاں میں 4نوعمر لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کا معاملہ سامنے آیا۔ ممکن ہے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پہلے بھی اسی شرح سے ہو رہے ہوں مگر میڈیا کی ہر علاقے تک رسائی نے اطلاعات کو عام کر دیا ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ معاشرہ بچوں کے لئے غیر محفوظ بن گیا ہے۔ بچوں کے خلاف بھیانک جرائم کی سزا موجود ہے مگر بیمار ذہن مجرموں کے دل میں سزا اور سماج کا کوئی خوف باقی نہیں رہا۔ صورت حال ہماری توقع سے زیادہ سنگین ہو چکی ہے جس کے لئے پارلیمنٹ کو قانون سازی کے اعلیٰ ترین ادارے کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں بچوں کے خلاف جرائم پر پولیس‘ سماجی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے فکر مندی کا اظہار کیا جاتا رہا مگر یہ فکر مندی جرائم کی شرح کو کم نہ کر سکی‘ سماج اور قانون کا باہمی تعلق بتاتا ہے کہ افراد اگر کسی جرم میں بے باک ہو جائیں تو سمجھیں معاشرہ اور قانون دونوں کا خوف ان کے دل سے نکل گیا ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں یہ الگ موضوع ہے‘ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیا سزا دی جائے یہ وہ سوال ہے جس کی جانب سے معاشرے کے کچھ بااختیار حلقے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ ایک وزیر موصوف نے سرعام پھانسی کی قرار داد کو انتہا پسندی اور تشدد کو بڑھاوا دینے سے تعبیر کیا ہے۔ سوال تو یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب وزراء خود پر تنقید کرنے والوں پر سرعام تھپڑ برسائیں گے تو کیا معاشرے میں انتہا پسندی، قانون شکنی اور تشدد پسندی نہیں بڑھے گی۔ رہی بات سرعام پھانسی کی سزا کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کی حیثیت کی تو سعودی عرب اور ایران میں کچھ عرصہ قبل تک سرعام سزائے موت کا رواج رہاہے جس کے وجہ سے وہاں جرائم کی سطح ہمیشہ کم رہی۔ سزا کا بنیادی مقصد لوگوں کے دل میں ریاست اور قانون کا خوف پیدا کرنا ہے۔ موجودہ قوانین مجرموں کو قرار واقعی سزا کی بجائے ان کے لئے قانونی آسانیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ مستقبل کے معماروں کو تحفظ دینے کے لئے پارلیمنٹ کو مغربی معاشروں اور عالمی رواجات کی بجائے مقامی ماحول اور ضروریات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پیپلزپارٹی کے جوقائدین اور وزرا کرام اس قرار داد کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں ان معصوم بچوں اور ان کے لواحقین کی بے بسی کا خیال کرنا چاہیے جو اب بھی ریاست پر بھروسہ کرتے ہیں۔