ایک دُنیا میرے بچپن کی دُنیا تھی اور ایک یہ دُنیا ہے جس میں ا ب رہ رہا ہوں۔ جب میں بچہ تھا، بچپن کی دُنیا سے نکلنا نہیں چاہتا تھا لیکن وقت نے مجھے دھکے دے کر اِس خوبصورت دُنیا سے جلا وطن کر دیا۔ میرے ساتھ دوسری ٹریجڈی یہ ہوئی کہ وقت نے مجھے اُس گائوںسے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا جہاں میرے ننگے پائوں اوّل اوّل زمین کے لمس سے آشنا ہوئے تھے۔ 1947ء میں ضلع گورداسپور کے اِس گائوں سے میں ( خاندان سمیت) ایسے نکلا کہ دوبارہ وہاں جانے کا موقع نہ ملا۔ اُس وقت میری عمر 6 سال تھی۔ میرا گائو ں پنجاب کے عام دیہات کی طرح کاایک گائوں تھا لیکن بچے کی آنکھ جس گائوں میں کُھلتی ہے اُس کے لئے وہ گائوں ہی ساری کائنات ہوتا ہے۔ گائوں سے باہرکیا ہے؟ دنیا کیسی ہے؟ یہ سوال اُس کے معصوم ذہن میں آتا ہی نہیں۔ آج جب کہ میں زندگی کا بیشتر سفر طے کر چکا ہوں، بہت دُنیا دیکھ چُکا ہوں ، میرے لئے کائنات کا سب سے حسین ٹکڑا وُہی گائوں ہے ۔ میرے دل و دماغ وہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ لاہور کی بلند و بالا عمارتوں کے سائے میں چلتے ہوئے ، خوبصورت پارکوں میں سیر کرتے ہوئے یا کسی جدید پُر تکلّف ہوٹل میںبیٹھے ہوئے جب اچانک میرے ذہن کے پردے پر میرے گائوں کی تصویر ابھرتی ہے تو مجھے اردگرد کی ہر شے بے رنگ لگنے لگتی ہے۔ کائنات سمٹ کر گائوں بن جاتی ہے اور گائوں پھیل کر پوری کائنات کو حصار میں لے لیتا ہے اور پھر میں سوچنے لگتا ہوں کتنے خوش قسمت ہیں شہر میں رہنے والے وہ لوگ جو موقع ملتے ہی اپنے گائوں چلے جاتے ہیں اورچند روز بچپن کی خوشبو ئو ں میں نہا کر واپس آجاتے ہیں۔ یہ لوگ اُس شخص کے کرب کا اندازہ نہیں لگاسکتے جس کا گائوں اُس کے لئے ممنوعہ علاقہ بن چُکا ہو اور جو ہمیشہ اُس خواب کا منتظر رہتا ہو جو چند لمحوں کے لئے اُسے اُن کچی گلیوں میں پہنچا دے جہاں بچپن کی یادیں بکھری پڑی ہیں۔ ہمارے گھر میںایک دھریک کا درخت تھا جو ہمارے صحن اور باہر گلی میں چھائوں کئے رکھتا۔ بہار میں جب اِس در خت پرخوبصورت پھول لگتے تو سارا گھر اُن کی سوندھی سوندھی خوشبو سے مہکنے لگتا ۔ میں اِس کے پھولوں کو توڑ کر گلدستہ بنا لیا کرتا تھا جسے بار بار ناک کے پاس لے جا کر سونگھتا۔ یہ خوشبو میرے بدن کے روئیں روئیں میں اُتر جاتی تو میں آنکھیں بند کر کے اِس کے سرور میں کھو جاتا ۔ جب یہ پھول خشک ہو کر جھڑ جاتے ، میں اداس ہو جاتا۔ تب میں دھریک کے چند پتے توڑ کر انھیں ہاتھوں میں مسل کر سونگھتا تو کھوئی ہوئی خوشبو سے پھر میرا رشتہ بحال ہو جاتا۔ مجھے اب بھی اگر کہیں دھریک کا درخت نظر آجائے تو زندگی کا پہیہ تیزی سے پیچھے کو گھومنے لگتا ہے اور مجھے 70 سال پہلے کے اُس درخت کی چھائوں میں لے جاتا ہے کہتے ہیں بچپن میں دیکھی ہوئی چیزوں کی محبت انسان زندگی بھر محسوس کرتا ہے۔ مجھے ریل گاڑی میں بے پناہ کشش محسوس ہوتی ہے ۔ اب بھی جب موقع ملے میں ریل گاڑی کے ذریعے سفر کرنا پسند کرتا ہوں۔ جب گاڑی چلتی ہے تو میں بچّوں کی طرح اس کا لطف لیتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ ہے کہ ہمارا سکول ریلوے اسٹیشن کے عقب میں واقع تھا۔ آدھی چھٹی کے وقت میں چند ہم جماعتوں کے ساتھ اسٹیشن پر پہنچ جاتا تھا اور وہاں کھڑی گاڑی کو دیر تک حیرت سے دیکھتا رہتا تھا۔ اگر کوئی گاڑی نظر نہ آتی تو مجھے بہت مایوسی ہوتی۔ چلتی گاڑی کو دیکھ کر میری رگوں میں خون کی حرکت تیز ہوجایا کرتی تھی ۔ جب مجھے زندگی میں پہلی بار ریل گاڑی کے سفر کا موقع ملا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ایک بار غالباً 1946ء میں جب میری عمر ساڑھے پانچ سال کے قریب تھی، میری والدہ مجھے ساتھ لے کر ریلوے سٹیشن پر پہنچیں تو میرے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ خدا خدا کر کے ٹرین آئی اور میں والدہ کے ہمراہ ایک ڈبے میں بیٹھ گیا ۔ جب گاڑی چلی تو مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوگئی جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اُدھر گاڑی چلی اور اِدھر میری رگوں میں خون رواں ہو گیا۔ میرے اکثر کزن عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔ میرے تینوں بھائی بھی عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔ ایک روز یہ سب لوگ ساتھ والے گائوں میں جانے کے لئے سائیکلیں سنبھال کر چل پڑے۔ میرے بڑے بھائی نے مجھے بھی سائیکل پر بٹھا لیا۔ کھیتوں کے درمیان کچے راستے پر ہوتے ہوئے ہم دوسرے گائوں پہنچے ۔ وہاں آبادی کے درمیان ایک چھوٹے سے میدان میں بہت سے لوگ دائرے کی شکل میں بیٹھے تھے۔ لکڑی کے تختے وغیرہ لگا کر سٹیڈیم کی طرز پر سیڑھیاں سی بنی ہوئی تھیں۔ ہم سب بھی وہیں فکس ہوگئے۔ میں غالباً اپنے بڑے بھائی کی گود میں تھا۔ تھوڑی دیر میں تین چار نو جوان لڑکیاں نظر آئیں جنھوں نے رنگدار بھڑکیلے کپڑے پہن رکھے تھے۔ مجھے اس قسم کی رنگ برنگی عورتیں دیکھنے کا پہلے کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اچانک ان لڑکیوں نے عجیب قسم کی اُچھل کُود شروع کر دی۔ پتہ چلا کہ اس اُچھل کود کو ناچنا کہتے ہیں۔ چند سال بعد پتہ چلا کہ اسے رقص بھی کہتے ہیں۔ پھر میں نے محفل رقص و سرُود کے الفاظ بھی سُنے۔ گویا رنگ برنگی لڑکیوں کی یہ اُچھل کود دراصل محفل رقص و سرُود تھی۔ میرے والد نے ایک گائے پال رکھی تھی۔ وہ اِس گائے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ عموماً ہماری دُکان کے سامنے والے چھوٹے سے میدان میں اُگے ہوئے پیپل کے درخت کے نیچے بندھی ہوتی تھی۔ یہ گائے اتنی خوبصورت اور توانا تھی کہ راہگیر بھی گزرتے ہوئے اُسے بغور دیکھتے ۔ بالخصوص ہندو، جن کے لئے گائے ماں کا درجہ رکھتی ہے، چلتے چلتے رُک جاتے اور بڑی عقیدت سے اُسے دیکھتے۔ اِسے دن میں ایک آدھ بار ضرور نہلایا جاتا اور تھان کی باقاعدگی سے صفائی کی جاتی۔ گائوں کے لڑکے ان کاموں میں والد صاحب کا ہاتھ بٹاتے۔ اِس گائے نے جب ایک پیارے سے بچھڑے کو جنم دیا تو میں بہت خوش ہوا۔ میں کبھی اِس بچھڑے کو پیار کرتا اور کبھی گائے کے بدن پر ہاتھ پھیر کر اُسے اس کارنامے پر شاباش دیتا ۔ گائے بچھڑے کا بہت خیال رکھتی لیکن اِسے میری اور بچھڑے کی دوستی پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ غالباً وہ مجھے اپنی ہی فیملی کا فرد سمجھتی تھی۔ جب میں پیار سے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتا تو اُس کی کھال میں ایک تھر تھری سی دوڑ جاتی۔ یہ اس با ت کی علامت تھی کہ اُسے پیار کرنا اچھا لگا ہے۔ جب وہ مجھے دیکھتی تو اُس کی آنکھوں کی محبت بھری چمک مجھے اس بات کا پتہ دیتی کہ ہندو اسے گئو ماتا کیو ں کہتے ہیں۔ میں کبھی کبھار اُس کے چھوٹے سے سینگوں کو پکڑ کر یا اُس کی گردن کے گرد ہاتھ حمائل کر کے جھولا جھولنے کے انداز میں لٹک جاتا تو وہ اس گستاخی کو زیادہ پسند نہ کرتی لیکن وہ کبھی بھی اپنا سر جھٹک کر مجھے زمین پر نہ گراتی تھی بلکہ اپنا منہ زمین کے پاس لے جا کر آہستگی سے پیچھے ہٹتے ہوئے میری گرفت سے آزاد ہو جاتی اور میں زمین پر بیٹھا رہ جاتا۔ میں پھر اُٹھ کر اُس کے گلے میں بانہیں ڈال کر لٹک جاتا ۔ وہ میر ی شرارتوں پر زچ تو بہت ہوتی تھی لیکن اس بات کا خیال رکھتی تھی کہ مجھے چوٹ نہ آئے۔ بہت تنگ آجاتی تو دو تین قدم پرے ۔ہٹ کر مجھ سے نظریں پھیر کر کھڑی ہوجاتی ۔ یہ اُس کی ناراضگی کا اظہار ہوتا تھا۔ اس دوران اگر بچھڑا اُس کے تھنوں تک منہ لے جاتا تو وہ ٹانگ سے اُسے ہٹا دیتی ۔ جب وہ مجھ سے ناراض ہوتی تو اپنے بچھڑے سے بھی ناراض ہو جاتی ۔ اُسے دودھ پلاتی نہ پیار سے چاٹتی ۔ اُس نے ہم دونوں کو ایک ہی جذباتی سطح پر رکھا ہوا تھا۔ سوتیلی مائوں والی کوئی بات اُس میں نہیں تھی۔