گزشتہ کالم کے حوالے سے خیال یہ تھا کہ سمندر پار پاکستانی اسے تنقید کا نشانہ بنائیں گے کہ ہم اپنے بچوں کے لئے ہی نہیں بلکہ وطن کے لئے بھی خطیر زرمبادلہ کما رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ایسی آسودگی کو آگ لگے جس کے حصول کے لئے اپنے بچوں سے دور رہنا پڑے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا اور ای میلز کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے اس کالم کو اپنے دل کی آواز بتایا۔ اکثریت کا کہنا تھا کہ بچوں سے دوری کے جو نقصانات خود ان کو اور ان کے بچوں کو اٹھانے پڑ رہے ہیں وہ بے پناہ ہیں، لیکن مجبوری یہ بن گئی ہے کہ اس دنیا میں لوگ سلام ہی اسے کرتے ہیں جس کی جیب میں چار پیسے ہوں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ جب تک بحرین میں جاب کرتا رہا خاندان میں سب بہت عزت سے پیش آتے رہے، لیکن جوں ہی وہ جاب چھوٹی اور بے روزگاری کا دور آیا تو سگے بھائی کے بچے کی ولادت کی خبر بھی کسی نے وقت پر دینے کے لائق نہ جانا۔ عدیل طاہر خیلی نے اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ہمارے ساتھ امارات میں ایک 57 سالہ انڈین مسلمان ملازمت کیا کرتے تھے جو ہر ماہ تیس ہزار درہم گھر بھجواتے۔ ایک بار صرف اس لئے عید پر گھر نہ جا سکے کیونکہ بچوں نے پیغام بھیج دیا تھا کہ ہمارے پیپرز آرہے ہیں آپ فی الحال گھر تشریف نہ لائیں ورنہ ہماری پڑھائی متاثر ہوگی۔ اگر غور کیجئے تو دنیا کے ننانوے نہ سہی پچانوے فیصد بچے تو ماں باپ کی ہی موجودگی میں پڑھتے ہیں۔ لیکن یہاں جس باپ کے ماہانہ تیس ہزار درہم اڑائے جا رہے ہیں اسے کہا جا رہا ہے کہ اس بار عید پردیس میں ہی کیجئے کیونکہ آپ کے آمد سے ہمارا تعلیمی نقصان ہوگا۔ یہ دنیا کے پہلے ایسے بچے ہوں گے جو عید کے تین روز بھی پڑھنے کا’’ عزم‘‘ رکھتے تھے، ایسے بچوں کے تو درشن ہونے چاہئے تھے مگر بروقت خبر نہ ہوسکی۔ اگر کوئی ان بچوں کے باپ سے پوچھے کہ بھئی آپ پردیس میں آئے کیوں ہیں ؟ تو جواب یہی ملے گا کہ بچوں کی خاطر پردیس کاٹ رہا ہوں۔ بادی النظر میں لگتا یہ ہے کہ عجیب ہی نمک حرام بچے ہیں جو باپ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ اس بار عید پر گھر نہ آئے۔ لیکن فی الحقیقت قصور ان بچوں کا ہے ہی نہیں۔ بنیادی چیز ہے ایک دوسرے سے وابستگی اور اس وابستگی کا والہانہ پن۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وابستگی کا آغاز ماں باپ کی جانب سے پیار محبت کے اظہار کی صورت شروع ہوجاتا ہے۔ اولاً صرف ماں باپ ہی پیار کا یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں لیکن جوں ہی بچہ بڑھنے لگتا ہے اس کی جانب سے پیار کا جواب پیار کے بہت ہی معصوم طریقوں سے ملنے لگتا ہے۔ پہلے صرف اس کی مسکراہٹ ظاہر ہوتی ہے، پھر یہ مسکراہٹ چند ہی روز میں باقاعدہ ہنسی میں بدل جاتی ہے اور اگلے چند ہفتوں میں بات ہنسی سے قلقاریوں اور قہقہوں تک چلی جاتی ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد بچہ چلنے پھرنے اور بولنے بھی لگتا ہے۔ ایسے میں یہ نظارے بھی عام ہوجاتے ہیں کہ کبھی وہ باپ کی مسکراہٹ کے جواب میں دوڑتا ہوا آکر اس کے سینے سے لگ جاتا ہے تو کبھی باپ کی پپی کے جواب میں اس کے گال پر پپی بھی کر دیتا ہے۔ اسی دوران اس کی تربیت کا عمل بھی شروع ہوچکا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس تربیتی عمل کے دوران جب بچہ کبھی اپنے باپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھتا ہے تو پریشان ہوجاتا ہے۔ کیوں ؟ وہ بچہ اس لئے پریشان ہوجاتا ہے کہ اپنے باپ سے اس کی وابستگی والہانہ حدود کو چھو چکی ہوتی ہے۔ وہ باپ کے پیار کا عادی ہوچکا ہے اور اچانک اسے یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ باپ کے پیار سے محروم بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے میں جب باپ اسے بتاتا ہے کہ اب تو میں اسی شرط پر راضی ہوں گا کہ آپ یہ وعدہ کیجئے کہ فلاں حرکت آئندہ نہ ہوگی تو وہ بچہ وعدہ کرتا ہے کہ نہیں ؟ یہ وعدہ وہ کیوں کرتا ہے ؟ کیونکہ باپ اور بیٹا دونوں ہی ایک دوسرے سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ باپ اور بیٹے کے تعلق اور مضبوط ہوتی وابستگی کو آپ پوری حیات پر پھیلا لیجئے اور غور کیجئے کہ رشتے کی تقویت میں مرکزی کردار مسلسل وابستگی کے علاوہ بھی کسی چیز کا ہے ؟ قطعا نہیں ! سو ایسے میں جس بچے کو سال میں باپ نصیب ہی صرف دو ماہ کے لئے ہوتا ہو اس کی اپنے باپ سے وابستگی کس درجے کی ہوگی ، کیا اس کی وابستگی میں بھی والہانہ پن ہوسکتا ہے ؟ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اولاد اور ماں باپ جیسے قریبی رشتے میں بھی اہمیت مسلسل وابستگی کی ہے۔ المیہ بس یہ نہیں کہ صرف باپ اور اولاد رشتے کی حرارت سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ تباہ کن بات یہ ہے کہ باپ چونکہ رشتوں کا وہ پاور ہاؤس ہے جو اولاد کی سرگرمیوں سے لے کر خاندانی تعلق تک کی تمام باریکیوں کو کنٹرول کرتا ہے لہٰذا جب یہ پاور ہاؤس موقع پر موجود ہی نہیں ہوگا تو یہ خاندانی نظم اپنے فطری بہاؤ کے مطابق چل سکے گا ؟ ایک بہت ہی اہم مسئلہ عورت اور مرد کی نفسیات میں زمین و آسمان کے فرق کا ہے۔ اگر اولاد میں لڑکے بھی شامل ہیں تو آگے چل کر ان کی مردانہ نفسیات میں کلیدی کردار تو بچپن ہی سے باپ نے ادا کرنا ہوتا ہے۔ ذرا کسی ماہر نفسیات سے پوچھ کر تو دیکھئے کہ جو لڑکی صرف لڑکوں میں پروان چڑھ رہی ہو، آس پاس کوئی اور لڑکی یا خاتون نہ ہو تو اس کی زنانہ نفسیات کا کیا حشر ہوتا ہے ؟ بعینہ لڑکوں کا بھی معاملہ ہے۔ پھر تربیت کا معاملہ بھی ہے جس میں باپ کا کردار خاص طور پر لڑکوں کے لئے تو بہت ہی اہم ہے۔ مردانہ زندگی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نوے فیصد گھر سے باہر کے امور میں گزرتی ہے۔انسانی حیات کوئی بچوں کا کھیل تو نہیں کہ کوئی یہ سوچ کر بے فکر ہوجائے کہ بچوں کو ڈالر یا درہم کی مدد سے کھانا اور لباس اچھا مہیا کر رہا ہوں لہٰذا بچوں کے تو مزے ہی مزے ہیں۔ اس غلط فہمی سے نکل آئے کہ بیرون ملک پیسہ کما کر آپ اپنے بچوں پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ آپ نے بیرون ملک ملازمت کے ذریعے اپنے خاندان کا پورا ایکو سسٹم تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔