بڑھکیں مارنے میں ان کا کوئی ثانی تھا نہ ہو گا۔ بڑھکیں مارنے اور یوٹرن لینے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ اور صرف اپنی ہی نہیں ان کے پیرو کاروں جنہیں وہ محبت سے کھلاڑی، پکارتے ہیں۔ بڑھکیں مارنے‘ مخالفین کو صلواتیں سنانے اور تڑیاں لگانے میں بے مثال ہیں۔ اپوزیشن میں تھے تو پریس کانفرنسوں، دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں بیانات کا یہ طوفان بلا خیز عوام میں خوب بکتا تھا اور سچی بات ہے اپوزیشن میں تھے تو یہ سب کچھ جچتا اور سجتا بھی تھا۔ میرا مطلب ہے یعنی صلواتیں‘ اور تڑیاں ساتھ ہی اونچی اونچی بڑھکیں۔! حالات کو بدل ڈالنے کی، ناانصافی‘ لاقانونیت مہنگائی بے روزگاری۔ وی آئی پی کلچر سے اٹے پرانے پاکستان کو یکسر بدل کر نیا پاکستان بنانے کی بڑھک۔! ویسے یہ ان کی مقبول ترین سیاسی بڑھک ثابت ہوئی۔ اس کے ساتھ یہ خواب بھی دکھایا گیا کہ نئے پاکستان میں کرپشن کی کوئی گنجائش نہ ہو گی۔ نیا پاکستان کرپشن سے پاک ہو گا۔ چند اور مقبول و معروف بڑھکیں یہ بھی تھیں۔ لوٹا ہوا پیسہ ملک میں واپس لائیں گے، قومی مجرموں کا احتساب کریں گے‘ قوم کا پیسہ لوٹنے والوں کو ہرگز این آر او نہیں دیں گے، روزگار پیدا کریں گے اور ایسے شاندار حالات پیدا کریں گے کہ لوگ باہر سے نوکریاں کرنے پاکستان آئیں گے۔چند مزید بڑی بڑی بڑھکیں یہ بھی تھیں کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھائیں گے، وی آئی پی کلچر ختم کریں گے، سادگی اپنائیں گے ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم نافذ کریں گے۔ جب اتنی بڑی بڑی خوابناک بڑھکوں سے ان کی تسلی نہ ہوئی توفرمایا کہ ریاست مدینہ کی طرز پر حکومت قائم کریں گے، یعنی اپنے لئے خود ہی معیار کی ایک مائونٹ ایورسٹ جتنی مثال کھڑی کر دی۔ کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے۔ غرض یہ کریں گے، وہ کریں گے، غریبوں کے لئے آسمان سے تارے توڑکر لائیں گے‘ خلائوں میں پودے اگائیں گے‘ صحرائوں پر دریا بہائیں گے۔ بس ایک بار، ایک بار عوام ہم پر اعتماد کر کے دیکھیں۔ ایک بار اقتدار کے تخت پر بٹھا دیں۔ پھر دیکھیں کیسے بناتے ہیں ہم نیا پاکستان!معذرت چاہتی ہوں کہ چند ایسی بڑھکوں کا تذکرہ بھولے سے رہ گیا۔جنہیںعوام میں کھڑکی توڑ رش‘‘ قسم کی مقبولیت ملی۔ ان میں سے ایک بڑھک تھی کشکول توڑ دیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس بھیک مانگنے کے لئے جانے سے بہتر ہے خودکشی کر لوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ سادگی اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرنے کے لئے بھی بڑی اعلیٰ نسل کی بڑھکیں ماری گئیں۔ مثلاً یہ کہ اقتدار میں آ کر وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنا دیں گے۔ گورنر ہائوس کو فلاں ادارہ بنا دیں گے۔ بڑے بڑے گھر گرا دیں گے اور ہاں 60لاکھ گھرغریبوں کو بنا کر دیں گے۔ ایسی عالیشان بڑھکوں پر کون کافر تھا جو اعتبار نہ کرتا۔ عوام تو پھر زرداریوں اور شریفوں کی کرپٹ طرز حکومت کے ڈسے ہوئے تھے اور بھلا بے روزگاری اور مہنگائی‘ کب اس ملک میں کم ہوئی ہے۔ سو عوام تو بڑھکوں کے اس جال میں آتے ہی آتے۔ یہاں تو بڑے بڑے گھاگ تجزیہ کار اور جہاندیدہ سیاسی تبصرہ نگار بھی بڑھکوں کے اس ’’سونامی‘‘ میں بہہ گئے اور ایسے بہہ گئے کہ اپنی تحریروں ‘ تجزیوں اور تبصروں میں یہ بشارت عوام کو دینے لگے کہ بس ستر سال سے ہمیں جس مسیحا کا انتظار تھا وہ آ گیا ہے اور اب جو بڑھکوں کے غبارے سے ہوا نکلی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا سورج سوا نیزے پر دہکتا ہوا‘ امیدوں‘ خوابوں اور توقعات کو راکھ کرتا ہے۔ ان کے وزیر خزانہ بے خودی میں سچ بول گئے کہ اتنی مہنگائی ہو گی کہ عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔ بس یہی بات ہے جو ان انصافیوں کے منہ سے نکلی اور حرف بہ حرف سچی ثابت ہو رہی ہے۔ چلیے جھوٹ کے اس بازار میں کوئی ایک تو سچ بولا کسی نے۔ اس کی تعریف تو ہونی چاہیے۔ وہ محاورہ آپ نے سن ہی رکھا ہو گا۔give the devil his due۔تو اسی محاورے کے مصداق ہم نے بھی وزیر خزانہ کی تعریف کر دی۔ ویسے وزیر موصوف نے جب سے وزارت کا قلمدان سنبھالاہے‘ کچھ بوکھلائے بوکھلائے سے دکھائی دیتے ہیں۔ اپوزیشن میں تھے تو سابقہ حکومتوں کی معاشی پالیسیوں بشمول ڈار صاحب کے معاشی نسخوں پر دل کھول کر تنقید کرتے۔ ملکی معاشی بحران کو حل کرنے کے ایسے ایسے نسخے بتاتے کہ گویا سماں باندھ دیتے۔ یار لوگ اس بات پر ایمان لے آئے کہ بھئی اس دراز قامت شخص کے پاس ضرور اس بیمار معیشت کو بھلا چنگا کرنے کا نسخہ موجود ہے۔ ضرور کوئی انقلابی معاشی پروگرام ان کے پاس ہے۔ جو نہ صرف لولی لنگڑی معیشت کو پائوں پر کھڑا کرے گا بلکہ یہاں بسنے والے سفید پوش پاکستانی کی دگرگوں معاشی حالت کے لئے بھی اکسیر ثابت ہو گا۔ بڑے بڑے جہاندیدہ تجزیہ نگار اپنے تجزیوں میں اس دراز قامت شخص کی قابلیت کے گن گاتے۔ ہائے ہائے۔ وہ بھی کیا وقت تھا کہ جب ان نام نہاد مسیحائوں کی قابلیت اور اہلیت کا پردہ قدرت نے رکھا ہوا تھا۔ پھر خواہشوں‘ خوابوں اور توقعات کی کہانی میں ایک نیا موڑ آیا اور اقتدار سچ مچ ان خواب دکھانے والوں کو مل گیا۔ اپنے لئے ریاست مدینہ کا معیار قائم کرنے والوں کو اقتدار ملا تو سانحہ ساہیوال نے ان کی قلعی کھول دی۔ تین یتیم ویسیربچے آج بھی مدینہ کی ریاست بنانے والوں کی جانب انصاف کے لئے دیکھ رہے ہیں۔ مہنگائی کا طوفان عوام کو بے حال کئے ہوئے ہے۔ عدالت سے نااہل شدہ جہانگیر ترین کابینہ کی میٹنگوں میں بصد اصرار بلایا جاتا ہے۔ منی لانڈرنگ کرنے والا ترین اب ان کی نگاہ میں قومی مجرم بھی نہیں۔ یہ سارے اصول قاعدے باقی دنیا کے لئے ہیں۔ مختصر یہ کہ اب یہاں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو ان کے منہ سے نکلی ہوئی بلند بانگ بڑھکوں اور دکھائے گئے خوابوں کے برعکس ہے۔ پٹرول میں تازہ اضافے نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ حکومت کی اس قدر بے حسی پر عوامی ردعمل فطری ۔ مگر اس کی کس کو پروا۔ عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ ان کی بڑھکیں مگر جاری و ساری ہیں۔! پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان سے بڑا کوئی بڑھک باز پیدا نہیں ہوا…