بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں زندگی کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے 5اگست 2019ء کو یکطرفہ طور پر کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے پرکورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ ایسا نہیں کہ بھارت کی عدالتوں پر حکومتی دبائو نہیں یا وہ کشمیر کے متعلق فیصلے دیتے وقت مکمل دیانت داری اور انصاف سے کام لیتی ہیں۔ بھارت میں انصاف کا بول بالا ہوتا تو سپریم کورٹ آف انڈیا کو کشمیری حریت پسند افضل گورو کو سزائے موت کا فیصلہ دیتے وقت یہ نہ کہنا پڑتا کہ ’’شواہد کی روشنی میں افضل گورو کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی لیکن بھارتی عوام کی بڑی تعداد کے اس کے متعلق جذبات مشتعل ہیں اور وہ اسے سزائے موت چاہتے ہیں اس لیے گورو کو سزائے موت دی جا رہی ہے۔‘‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتح اتحادیوں نے خود کو مہذب قرار دیتے ہوئے ایسے عالمی ادارے قائم کیے جو جنگ، تشدد اور مالیاتی جرائم کو روکتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے کے لیے ایٹمی توانائی کی ایجنسی، حیاتیاتی اور اعصابی ہتھیاروں کی تیاری روکنے کے لیے الگ سے ادارے قائم اور قانون سازی کی گئی۔ انسانی حقوق کا ایک متفقہ چارٹر ترتیب دیا گیا جس پر اقوام متحدہ کے 194رکن ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں۔ ان انتظامات کا دوسری جنگ عظیم کے فاتح اتحادیوں کو یہ فائدہ ہوا کہ انہوں نے اپنی توجہ معاشی ترقی پر مرکوز کی اور تنازعات کو سفارتی و سیاسی مکالمے سے طے کرنا سیکھا۔ اس حکمت عملی نے ان ممالک کو مستحکم، آسودہ اور مضبوط بنایا۔ پاکستان اور بھارت انسانی وسائل اور دستیاب زمینی وسائل کے لحاظ سے تیز رفتار ترقی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تنازع کشمیر ایسے کرداروں کی وجہ سے پیدا ہوا جو برصغیر کے باشندوں سے زیادہ انگریز اور عالمی استعمار سے قربت رکھتے تھے۔ اس تنازع کو دوطریقوں سے طے کیا جا سکتا تھا۔ پہلا طریقہ پرامن ذرائع کا استعمال ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل دے چکی تھی۔ دوسرا طریقہ جنگ ہے ،دونوں ریاستوں میں سے کوئی ایک اس قدر غالب آ جائے کہ دوسرے سے کشمیر بزور طاقت چھین لے۔ دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں ہوئیں اور کشمیر کا معاملہ طے نہ ہو سکا۔ بھارت کی طرف سے یہ ضد کہ کشمیر متنازع نہیں امن پر یقین رکھنے والی عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف اور عالمی قوانین کا تمسخر اڑانا ہے۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کو صرف اس وقت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ جب بھارت پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر کو متنازع علاقہ مانے اور کشمیریوں سے اس بابت رائے طلب کی جائے۔ کشمیری باشندے بھارت کے زیر تسلط رہنے کو تیار نہیں۔ بہتر برسوں کے دوران کشمیری آزادی کے لیے جانیں قربان کرتے رہے ہیں۔ بہتر برس گزرنے کے باوجود آج بھی حالت یہ ہے کہ کشمیر کے کسی علاقے پر بھارت کا پرامن قبضہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کشمیری باشندوں کو مسلسل جبر کے ذریعے گھروں میں بند کر کے بھارت دنیا کو دکھا رہا ہے کہ گویا اس کے یکطرفہ فیصلے پر کسی کشمیر ی نے احتجاج کیا نہ مخالفت کی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے رفقاء عالمی رہنمائوں سے کشمیر پر حمایت کے بدلے کاروبار کی بات کرتے ہیں۔ کچھ ممالک نے ان کی حکمت عملی کو قبول بھی کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوری دنیا کا ضمیر سو چکا ہے۔ بھارت کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہو سکتی ہے کہ جینڈر رائٹس، ہیومن رائٹس، جنیو سائیڈ واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دوسری قابل ذکر تنظیموں میں سے کسی ایک نے بھی نریندر مودی اور ان کی حکومت کے مؤقف کو درست قرار نہیں دیا۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور یورپی یونین بھارت سے تنازع کشمیر مقامی آبادی کی رائے سے طے کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمشن نے ایک سال کے دوران دو رپورٹس جاری کیں جن میں مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے کشمیریوں پر غیر انسانی مظالم کی مذمت کی گئی۔ امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے سربراہ اس معاملے پر اپنی تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔ سفاکیت اور مذہبی تشدد میں پاگل مودی حکومت کو اپنے اردگرد یہ تبدیلیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا نریندر مودی کس حد تک احترام کرتے ہیں اس کے بارے میں پاکستان قطعاً کسی خوش فہمی کا شکار نہیں۔ 5اگست کا اقدام بھی تو عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی تھا۔ بس اس فیصلے کی ایک اہمیت ضرور ہے کہ دنیا کے سامنے بھارتی جمہوریت کا بدنما چہرہ پھر سے بے نقاب ہو گیا ہے۔ جو جمہوریت اداروں کا احترام اور عوام کی منشاء کا خیال نہ کرتی ہو اسے دنیا میں کہیں عزت نہیں ملتی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آل پارٹیز کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے نمٹنے کے لیے ہمیں نئی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے تنازع کشمیر کو ساری دنیا میں اجاگر کیا ہے۔ بھارتی اقدامات نے پاکستانی قوم کو ایک بار پھر متحد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی کو متحرک کرنے سے صرف تنازع کشمیر پر بھارتی منصوبہ بندی ناکام نہیں ہو گی بلکہ اس کے اثرات بھارت کی عالمی ساکھ اور تجارتی حیثیت پر بھی منفی انداز میں مرتب ہو سکتے ہیں۔عدالتیں انصاف کے لیے ہوتی ہیں، عالمی ادارے عالمی امن کے لیے کردار ادا کرتے ہیں، عالمی برادری کا مطلب عالمی ہجوم نہیں ،کچھ بنیادی انسانی اصولوں پر اتفاق ہی عالمی برادری کی حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ بھارت تمام قانونی اور اخلاقی اصولوں سے انکاری ہو چکا ہے۔ کشمیر میں اس کے مظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے عالمی برادری کو اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہو گا جو ایک قانون شکن کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔