کہتے ہیں ایک نٹ کھٹ، ٹین ایجر بکری نے گھاس کے ہرے سمندر میںڈب جھلکے کھاتے ، تازہ شیمپو کی ہوئی دُم کو ہلاتے، پیار سے منمناتے اور تھوڑا سا شرماتے ہوئے پاس کھڑے ’گراس روٹ لیول‘ پہ ممیانہ روی کی زندگی کے دن گن گن کر گزارتے، اداس، غمگین اور فلسفی نما بکرے سے دیپکا پڈوکون کے سے انداز میں کہا: ’’ جانو!آ ئی لوّ یو۔۔۔‘‘ جانور کی جگہ ’ جانو ‘ کا حیران کُن بلکہ اس موقع پر پریشان کن لفظ بلکہ خطاب سن کر ارمانوں بھرے نوجوان بکرے کا دل ایک دم ’ بکرا بلانے ‘ کے لیے مچلنے لگا۔ وہ اپنے سامنے بکراتی حسن کے جلوے بکھیرتی مانوس اجنبی حسینہ کو دیکھ کر ، جِنون کی قید میں جکڑی شہزادی کی مانند پہلے کھلکھلا کے ہنس پڑا، پھر فوراً ہی کچھ سوچ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔پہلی ہی نظر میں خوب رُو بکرے کو دل دے بیٹھنے والی اس نوجوان بکری کی الھڑ سہیلیوں نے بکرے میاں کے اس انداز میں ہنسنے اور رونے کی وجہ دریافت کی تو سمارٹ بکرے کے چہرے پہ کھنڈتی ہوئی یتیمی، مسکینی اور رومانوی اداسی کا رنگ مزید گہرا ہو گیا اور وہ ہماری پرانی SAD فلموں کے ادھیڑ عمر ہیرو کی مانند گمبھیر انداز میں بولا: ’’اجنبی مٹیارو! ہنسا تو میں اس لیے ہوں کہ اپنے محلے کے بابا بکری شناس سے مہنگے داموں حاصل کیا ہوا میرا ’’ محبوب آپ کے قدموں میں ‘‘ والا کرشماتی تعویذکام دکھا گیا ہے اور رویا اس لیے ہوں کہ بکروں کے حالات و جذبات پہ صدمات کی بجلیاں گرانے والی عیدِ قرباں ہمارے گھر کی دہلیز پار کر کے ڈرائنگ روم میں آن بیٹھی ہے۔‘‘ سابقہ بکریاتی مقابلۂ حسن میں اول آنے والی بکری اپنے نئے نویلے امکانی ساجن کی اداسی اور گمبھیرتا کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی: ’’اتنا پریشان اور جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، تم مستقبل قریب کے سانحے پہ دل جلانے کی بجائے یہ سوچ کے مطمئن ہو جاؤ کہ آخر محبت بھی تو قربانی مانگتی ہے۔‘‘ اداس بکرا لمحہ بہ لمحہ شدید ہوتی پریشانی میں لا محدود اداسی اور تفکر کی آمیزش کرتے ہوئے بولا: ’’تم عشق اور جذبات میں جاں سے گزرنے اور ماجھے قصائی کے ہاتھوں کھَل اُتروانے کے فرق کو سمجھتی کیوں نہیں رانو!!!‘‘ ابھی جان اور جانو کے درمیان یہ جذباتی اور فلمی سین چل ہی رہا تھا کہ اس موٹے تازے بکرے کا سوکھا سڑا مالک دل میں دام اور بیوپاریوں میں نام کمانے کے ارمان سجائے اور ہاتھ میں رنگ برنگا سہرا ، چھن چھن کرتا کنگن اور پیتل کی جھانجھریں لیے آ نمودار ہوا ۔ اس نے آتے ہی پہلے تو اپنے گھر میں ناز نخروں سے پلے اس بکرے کا ہار سنگھار مکمل کیا ، یعنی اس کی آنکھوں میں سُرمہ، پاؤں میں پازیبیں، سینگوں پہ ست رنگے پھُمن اور گلے میں گلابی رنگ کی رسی ڈالی ۔ سامنے والے حجام کے سرِ راہ لگے آئینے میں اپنی پھبن دیکھ کے چند لمحوں کے لیے بکرے کے دولھانہ عزائم عَود کے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی چال میں ’ہوا میں اُڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا‘ والی ترنگ در آئی، لیکن جوں ہی اس کے مالک نے اس کا رُخ ’شٹالہ شادی ہاؤس‘ کی بجائے بکرا منڈی کی طرف موڑا ، تو اس کے ارمانوں پہ اوس سی پڑگئی اور پڑتی ہی چلی گئی۔ بکرا منڈی کے تعفن بھرے علاقے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سارے ہجوم کو چیرتی ہوئی ایک انوکھے انسان پر پڑی، جو بظاہر حیران، بباطن پریشان، اپنے انسان ہونے پہ مغرور، عادات اور حالات سے مجبور، ایک ہاتھ دل پہ اور دوسرا جیب پہ رکھے ، کسی سگھڑ اور صالح بکرے کی تلاش میں آنکھیں فرشِ راہ کیے بیٹھا تھا۔ دونوں اچھے دنوں سے مایوس اور وقتی حالات اور زمانے کے ستائے ہوئے لگتے تھے۔ اس مُڈ بھیڑ پر دونوں کے درمیان آنکھوں ہی آنکھوں میں کیا غضب ناک مکالمہ ہوتا ہے، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں: آدمی: ’’ السلام علیکم!‘‘ بکرا: ’’ بھولے انسان کس سلامتی کی بات کرتے ہو؟ جو دو تین روز بعد چھُری کی صورت میرا مقدر بننے والی ہے۔ پہلے وہ میری بھولی بھالی ماں ہی کیا کم تھی، جو انسانی محاورے کو یکسر نظر انداز کر کے بِلا سوچے سمجھے میری خیر منانے پر تُلی ہوئی تھی، اوپر سے تم نے بھی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے میری دُکھتی رگ پہ ’السلام علیکم‘ رکھ دی ہے ظالم! آپ مجھے بتانا پسند فرمائیں گے کہ اس وقت آپ مجھے ذبح کرنے کے لیے لے جانا چاہتے ہیں یا سکول میں داخل کروانے کے لیے؟‘‘ آدمی: ’’اوہ سوری بکرے میاں ! میں نے تو بس روا روی میں روایتی سلام کر ڈالا تھا، اس کے معنوں پہ غور ہی نہیں کیا تھا۔‘‘ بکرا: ’’انسان میاں! ایک تو یہ تمھاری روا روی تمھیں کسی دن لے ڈوبے گی۔ تمھیں پتہ بھی ہے کہ ماضی قدیم میں برتی گئی اسی روا روی میں تمھارے باوا آدم اچھے بھلے کھلکھلاتے آسمان سے بری طرح بلبلاتی زمین پر آ رہے تھے اور اب تم صدیوں سے اپنی اسی رواروی میں چھوڑی ہوئی جنت کے حصول کے لیے مرے جا رہے ہو ۔ اور جہاں تک تمھارے کسی بات پہ غور کرنے کا معاملہ ہے، تو بھائی میاںتم نے آج تک کبھی اپنے اشرف المخلوق ہونے پر غور کیا ہے ؟ جو سلام کے معنوں پہ غور کرو گے!!‘‘ آدمی: ’’ارے رے بکرے میاں! تم بکرا ہی رہو، بقراط بننے کی کوشش نہ کرو۔ ‘‘ بکرا: ’’حضرت تم جانتے ہو کہ بکرا اور بقراط میں ایک’ ط ‘ ہی کا تو فرق ہے۔ ویسے بھی تم مجھے بقراط، سقراط، افلاطون، برٹرینڈرسل،جون ایلیا، سیاست دان کچھ بھی کہہ لو ، تم مجھے سچ بولنے سے باز نہیں رکھ سکتے… ویسے بھی تمھارے ہاںسچ بولنے کی جو زیادہ سے زیادہ سزا ہے، میں اس کے لیے ذہنی و جسمانی طور پر پہلے سے تیار ہوں۔‘‘ آدمی: ’’بکرے میاں! تم جس چیز کو سزا سمجھ رہے ہو ، وہ اصل میں ایک غیر معمولی قسم کی جزا ہے، جو تمھیں سیدھا جنت میں لے جائے گی۔ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو تمھارے نامۂ اعمال میں درج ہوگا۔ ایک وقار ہے جو تمھاری ذات کا حصہ بن جائے گا، ایک نیک نامی ہے جو تمھاری شخصیت کو چار چاند لگا دے گی، ایک شُبھ گھڑی ہے جوتمھاری زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹھہر جائے گی، ایک پُن ہے جو ۔۔۔‘‘ بکرا: ’’ناں بھائی صاحب ناں! میں تم انسانوں کی چکنی چُپڑی باتوں میں آنے کا نہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس سارے سلسلے میںہماری تو صرف گردن پہ چھری چلتی ہے۔خود تمھارے عقیدے کے مطابق ثواب سارے کا سارا تمھارے کھاتے میں اور اگر نیت اچھی نہ ہوئی تو کھُوہ کھاتے میں جائے گا۔ہمارا المیہ اور ڈیوٹی تو یہ ہے کہ ہمیں یہاں بھی چھری کے لیے گردن پیش کرنی ہے، اور تمھارے ہی بقول روزِ محشر بھی تم لوگوں کے تمام تر گناہوں کا بوجھ اٹھا کے بغیر کسی معاوضے کرائے اور احسان کے ، تمھیں بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز پُل صراط کے پار اتارنا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ تمھارے ہی عقیدے کے مصداق اس سارے سلسلے کا منافع اور کریڈٹ بھی تمھارے ہی اکاؤنٹ میں جمع ہوگا۔ شاید اسی نا انصافی پر کسی زمانے میں تمھارے ہی کسی بھائی بند نے دیکھیے کیا مزے اور پتے کی بات کہہ ڈالی تھی: ؎ یہ عجیب معاملہ ہے کہ بہ بروزِ عیدِ قرباں وہی ذبح بھی کرے ہے ، وہی لے ثواب اُلٹا