آج لندن میںسیاسی طور پر گمنامی کی زندگی گذارنے والے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی کے بارے میں ’’حرف ِ حق‘‘ لکھنا بڑا آسان ہے ۔ مگر ایک وقت تھا اور جو تین دہائی پر محیط ہے کہ بانی ایم کیو ایم کے بارے میں حرف گیری کرنے والے قابل ِ گردن زدنی ٹھہرائے جاتے ۔ہماری سیاست کا یہ بھی ایک بڑا المیہ ہے کہ لوئر کلاس کیڈر کی جو بھی مذہبی ،لسانی تنظیم اور تحریک کھڑی ہوتی ہے وہ بتدریج اپنے کردار و عمل سے فاشزم کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ پاپولر یعنی مقبول ِ عام نعروں پر اس تنظیم اور تحریک کا قائد اپنے ہی حامیوں کے ساتھ ایک سخت گیر ڈکٹیٹر کا سلوک روا رکھتا ہے۔تحریک اور تنظیم کے اندر ایک مٹھی بھر ملٹنٹس کا گروہ قائد کے ایک اشارے پر جان دینے اور جان لینے کے لئے تیار ہوتا ہے۔حالیہ دنوں میں ایک مذہبی تحریک بھی اسی راہ پر گامزن نظر آتی ہے جس پر کبھی آگے چل کر تفصیل سے گفتگو ہوگی۔مگر یہ بات خو ش آئند ہے کہ اس تنظیم کے بارے میں ملک کی اعلیٰ عدالتیں کھل کر فیصلے بھی دے رہی ہیں۔ اور میڈیا کا ایک حلقہ اسے نشر اور شہ سرخیوں میں شائع بھی کررہا ہے۔بدقسمتی سے متحدہ قومی موومنٹ کے عروج کے ابتدائی دنوں میں ہی ایجنسیوں اور اداروں نے متحدہ کے مرکز نائن زیرو پر بانی ایم کیو ایم کے قدموں میںہتھیار ڈال دئیے۔پھر درمیانہ طبقے کے دانشوروں اور مفادپرستوں نے بھی مصلحت کوشی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ’’متحدہ ‘‘ کے قائد کو ایک دیو مالائی کردار بنا نے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ایک وقت تو ایسا آیا کہ موصوف بانی کو پیر صاحب کے مرتبے پر فائز کردیا گیااور اُن کی کرامات کا ذکر بھی سینہ بہ سینہ ہوتے ہوئے میڈیا میں جگہ پانے لگا۔1992ء کے ملٹری آپریشن سے پہلے ہی بانی ایم کیو ایم لندن کوچ کرگئے تھے۔اس لئے اس آپریشن سے خود محفوظ رہے مگر اُن کے حامیوں کو یقینا شدید ریاستی تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا بھی فائدہ لندن میں بیٹھے بانی ایم کیو ایم کو ہی ہوا۔اب اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں کہ اُن میں سے بیشتر کردار مرحوم یا گمنام ہوچکے ہیں۔مگر یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے نے بھی اپنے مقاصد کیلئے متحدہ قومی موومنٹ کو ملک کی تیسری بڑی پارلیمانی و سیاسی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔نوّے کی دہائی میں جو بھی اسلام آباد میں حکومتیں بنتیں یا ٹوٹتیں۔۔۔اس میں متحدہ قومی موومنٹ کا مرکزی کردار ہوتا ۔متحدہ قومی موومنٹ میں ’’چھوٹی بڑی بغاوتیں تو ہوتی رہیں اور انہیں اس طرح کچلا گیا کہ دوسرااس راستے پر چلنے کی جرأت نہ کرسکے۔مگر کریڈٹ بہرحال سابق میئر کراچی مصطفی کمال اور حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے انیس قائم خانی کو جائے گا۔ جنہوں نے مارچ 2016ء میں متحدہ کے بانی پر ایک ایسا خود کش حملہ کیا جس سے اُس کی بنیاد یں ہل گئیں۔محترم مصطفی کمال اور ان کے رفقاء یہ کہتے ہوئے جھجکتے بھی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جس نے بانی ایم کیو ایم کی سرپرستی کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو ناقابل تسخیر بنا یا ،پھر اُسی نے غلطی کا احساس ہونے پر اس بات کا موقع بھی فراہم کیا۔ محترم مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ بانی ایم کیو ایم کے خلاف عَلم ِ بغاوت بلند کرنا آسان نہ تھا۔پھر دوسری جانب بعد میں بننے والی بہادر آباد، پیر کالونی کی ایک موثر قوت بھی اُن کے پیچھے کھڑی تھی۔دراڑ مئی 2013ء کے الیکشن میں پڑی۔اور اس میں بھی ایک بڑے محرک کا ذکر ضروری ہے جس نے متحدہ کے مقابلے میں ایک متبادل سیاسی قوت مہیا کی۔میری مراد تحریک انصاف سے ہے جسے مئی 2013ئکے الیکشن میں معروف معنوں میں اردو اسپیکنگ یا مہاجر ووٹ جھولیاں بھر بھر کے پڑے۔پی ایس پی بنانے والے محترم مصطفی کمال اعترا ف کرتے ہیں کہ مئی 2013ء میں ہماری پتنگیں ڈور سمیت کٹ چکی تھیں۔مصطفی کمال کی مارچ 2016ء کی کامیاب بغاوت کے بعد اگست 2016ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی نے پاکستان مخالف نعرہ لگا کرخود اپنی جماعت اور پیرو ں پر جو کلہاڑی ماری وہ اپنی جگہ ایک معمہ ہے۔جس کی گُتھی آج تک نہیں کھلی۔متحدہ کے بانی نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا ۔ ۔ ۔کیا انہیں یہ علم نہ تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کے کمزور کندھوں پر کھڑی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان مخالف نعرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔اور خود اس کے بوجھ تلے دب کر ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔کراچی کے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ ’’مائنس بانی ایم کیو ایم ‘‘ ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر زندہ رہ سکتی تھی۔مگر ’’گیم پلینر‘‘ ایم کیو ایم کے نام پر کسی سنپولیے کو دودھ پلانے کے لئے تیار نہ تھے۔محتاط الفاظ استعما ل کر رہاہوں ۔ ۔ ۔ مستند ذرائع کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک مقامی حلقے کی کوشش تھی کہ مائنس بانی ایم کیو ایم الیکشن 2018ء کے لئے زند ہ رکھی جائے۔مگر دودھ کی جلی اسٹیبلشمنٹ کوئی بڑا riskلینے کے لئے تیار نہیں تھی۔جولائی 2018ء کے الیکشن میں اسے سیاسی طور پر زندہ تو رکھا گیا مگر۔ ۔ ۔اس کا قد کاٹھ’’ پگارا لیگ‘‘ کے آس پاس ہی رکھا گیا۔مسلم لیگ کی طرح آج سندھ کی دوسری اور ملک کی تیسری بڑی قوت کتنے حصوںمیں تقسیم ہے۔کم از کم پانچ نام تو لئے جاسکتے ہیں۔مصطفی کمال کی ایک پی ایس پی ،آفاق بھائی کی مہاجر قومی موومنٹ، اور خالد مقبول صدیقی اور فاروق ستار کی بھی الگ الگ ایم کیو ایم اور ایک ٹیسوری ہوتے ہیں۔۔۔وہ بھی خود کو ایم کیو ایم کہلاتے ہیں۔بکھری ہوئی متحدہ کا تفصیلی ذکر تو کربیٹھا ۔مگر اُن عوامل کا ذکر رہ گیا جس نے کراچی کے 120گز کے پلاٹ پر نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے اوسط درجے کے پڑھے لکھے پچیس ،چھبیس سال کے نوجوان کو اتنا بڑا بانی ایم کیو ایم اور اُس کی بنائی ہوئی تنظیم کو اتنی بڑی قوت بنا دیا کہ جو تین دہائی تک صوبہ سندھ پر راج کرتی رہی۔ کوشش ہوگی کہ اس موضوع کو آئندہ کالم میں سمیٹ دوں کہ پہلے بھی لکھا کہ ایم کیو ایم اور اُس کے بانی پر لکھنے کے لئے ایک ،دو کتابیں نہیں۔۔۔جلدیں بھی کم ہیں۔