آج اس شخص کی 25 ویں برسی ہے جو شخص قائد اعظم کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا بڑا بیٹا تھا۔ ان کے والدایک نئی طرز کے لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ جنہوں نے سیاست کو عوامی رنگ اور ڈھنگ دیا۔ جنہوں نے سیاست کو ایک ایسا جنون بنایا جن سے جیالوں نے جنم لیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی سیاست اقتداری تھی مگر اس میں مکمل طور پر مکاری اور ایسی فنکاری نہ تھی جو آج کل سیاست کی پہچان بن چکی ہے۔ شیخ ایاز کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ صرف بڑے رائٹر نہ تھے بلکہ بہت بڑے ریڈر بھی تھے۔ ان کی شاعری اور نثر پڑھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے کہ کتنی گہرائی سے مطالعہ کرتے تھے۔ انہوں نے مسٹر بھٹو کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر مسٹر بھٹو شیکسپیئر کے وقت میں ہوتے تو شیکسپیئر ان پر ایک شاہکار ڈرامہ تحریر کرتا مگر افسوس کہ نہ توذوالفقار علی بھٹو نے انگلستان میں جنم لیا اور نہ شیکسپیئر سندھ میں پیدا ہوئے۔شیخ ایاز نے اپنے ہمعصر سیاستدان کے بارے میں یہ بات کیا سوچ کر لکھی؟ میں نہیں جانتا مگر اس ملک کا ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ ’’بھٹو‘‘ وہ شخص تھا جو پہلے خاندان بنا اور وہ خاندان اپنا خون آج تک خاک میں بہاتا رہتا ہے۔بھٹو خاندان کی کہانی ایک افسانوی انداز سے بھی بیان کی جا سکتی ہے۔ مسٹر بھٹو جس طرح پھانسی پر چڑھے اور ان کی بیٹی جس طرح سیاست میں داخل ہوئی ۔ آمریت کے دنوں کے دوران اور موسم گرما میں سندھ کے بہت گرم شہر سکھر کی جیل میں اسیر رہیں۔ ماں اور بیٹی ملک کے اندر قیدی دو بیٹے جلاوطن اور وہ بھی کابل میں! پھر ایک بیٹے کا فرانس میں مبینہ طور قتل ہونا اور پھر ان کے بڑے بھائی کا شام میں پناہ لینا۔ پھر اس بیٹے کی بہن کا وزیر اعظم بننا اور بھائی کا وطن واپس آنا۔ اس کے بعد وزیر اعظم بہن کے شوہر کے ساتھ ان کی ان بن اور پھر اپنے کراچی والے آبائی گھرکے سامنے ان کا قتل ہونا ۔ کیا یہ سب کچھ افسانوی نہیں ہے؟ اور افسانہ وہاں پر نہیں رکتا۔ پھر اس کی بہن کا راولپنڈی میں قتل ہونا۔ سیاست پر زرداری کا چھا جانا۔ مرتضی بھٹو کی بیٹی اور بیٹے کا جلاوطن ہوجانا۔ مرتضی بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو کا ادیب اوررائٹر بن جانا اور بیٹے کا صوفی درویش بن کر بیرون ملک میں رقص کرنا۔ کیا یہ سب کچھ ایک عجیب انداز کا افسانہ نہیں ہے؟بھٹو فیملی کو ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ اس پر تو ایک ناول لکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ جن حالات سے یہ خاندان گذرا ہے،پاکستان میں وہ زندگی کسی سیاستدان کے مقدر میں نہیں رہی۔ کیوں کہ اس افسانوی حقیقت کے بہت سارے پہلو ہیں۔ اس حقیقت نما افسانے کے اتنے پہلو ہیں کہ وہ سارے پہلو اخبار میں تحریر کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ اگر پاکستان کی صحافت مکمل طور پر آزاد بھی ہوتی تب بھی وہ ساری باتیں لکھنا اور شائع کرنا ممکن نہیں ہیں جو باتیں بھٹو فیملی کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہم تو اب تک مرتضی بھٹو کے قتل کے بارے میں بھی کھل کر نہیں لکھ سکتے۔ کیوں کہ اگر ہم کوئی دعویٰ کرتے ہیں تو ہمارے پاس ثبوت نہیں ہیں۔ ہم ایک لفظ کو سو بار سوچ کر لکھتے ہیں مگر مرتضی بھٹو کے بارے میں یہ الفاظ لکھنے کی ہم کو پھر بھی آزادی ہے کہ وہ بہت بہادر تھے۔ ان کے لیے مشہور تھا کہ بہت جذباتی تھے۔ مرتضی بھٹو صرف بہادر نہیں وہ بہت خوبصورت شخص بھی تھے۔ وہ اپنی جوانی میں تو کسی جلاوطن شہزادے کی طرح نظر آتے تھے۔ ان پر فل سوٹ بھی بہت سجتا تھا مگر بلو جینز اور سرخ شرٹ میں تو وہ کسی ہالی ووڈ کے اداکار نظر آتے تھے۔ وہ مرتضی بھٹو جنہوں نے جلاوطنی کے دوران پہلی شادی ایک افغان لڑکی سے کابل میں کی اور دوسری شادی ایک لبنانی لڑکی غنویٰ سے کی۔ مرتضی بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی بیٹی فاطمہ بھٹو نے بھٹو خاندان پر جو کتاب Songs of Blood and Sword کے نام سے لکھی وہ کتاب بہت ساری باتیں بتاتی ہیں۔ وہ کتاب ایک ناول کی طرح بھی ہے مگر وہ ناول حقائق پر مبنی ہے۔ مرتضی بھٹو کی زندگی اور ان کی جدوجہد کی داستان ان کی بیٹی نے بڑی محنت اور محبت کے ساتھ لکھی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد انسان محسوس کرتا ہے کہ زندگی بے یقینی کی بہت بڑی داستان ہے۔ مرتضی بھٹو نے اپنی زندگی کو ہمیشہ خطرات میں کسی چراغ کے مانند جلا کر رکھا۔ انہوں نے وطن واپس آنے کے بعد بھی جو سیاست کی ،وہ کارکنوں کے لیے تھی۔ پیپلز پارٹی کے اصلی اور حقیقی کار کنوںنے اپنی زندگیاں بھٹو خاندان پر نچھاور کرنے میں کبھی ایک پل کے لیے بھی نہیں سوچا اور کیا یہ بات قابل حیرت نہیں کہ بھٹو خاندان کے وارث مرتضی بھٹو نے اپنی زندگی کارکنوں پر قربان کردی۔ مرتضی بھٹو اگر آج زندہ ہوتے تو وہ 67 برس کے ہوتے اور آج پاکستان کے سیاسی حالات کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ ان کی وجہ سے کوئی بہت بڑا انقلاب آجاتا۔ شاید آجاتا اور شاید نہ بھی آتا مگر پھر بھی پاکستان کی سیاست کا منظر بہت مختلف ہوتا۔ پاکستان کی سیاست آج کسی آدرش کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست میں آدرشی کردار تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر مرتضی بھٹو زندہ ہوتے تو ہمیں وہ انقلابی کردار تلاش کرنے میں اس قدر مشکل نہ ہوتی۔ میں آج بھی جب مرتضی بھٹو کی تقاریر اور ان کی پریس کانفرنسیں دیکھتا ہوں تو میرے دل سے ایک ہوک اٹھتی ہے کہ ہم نے سیاست میں کتنے خوبصورت انسان کھو دیے ہیں۔ وہ شخص جو ساری زندگی وطن سے دور رہا جب وہ پاکستان لوٹا تب بکھرا ہوا بھٹو خاندان ایک بار پھر متحد اور منظم ہوتا نظر آنے لگا۔ ایک بہادر شخص اپنی بیوہ ماں بیگم نصرت بھٹو اور اپنی بیوی غنوی بھٹو اور اپنی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ جس طرح ستر کلفٹن کے لان میں غیر ملکی صحافیوں سے باتیں کر رہا ہے اور جس طرح وہ اپنی بہن کی حکومت پر تنقید کرتا ہے۔ وہ سب کچھ بہت پرکشش نظر آتا ہے مگر وہ خاندان مرتضی بھٹو کے خون بہنے کے ساتھ ایک بار پھر منتشر ہوجاتا ہے۔ وہ انتشار آج پھر ایک نئی صورت کے ساتھ نمودار ہے۔ کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ بھٹوز کی کہانی ’’خاک اور خون‘‘ نامی ایک ایسی داستان کی مانند ہے جو ادیبوں اور دانشوروں کے لیے ایک طرح کی عجیب کشش رکھتی ہے۔ہم اس داستان کے کردار نہیں۔ ہم اس داستان کے راوی بھی نہیں۔ ہم اس داستان کے قاری بھی نہیں۔ کیوں کہ وہ ایک ادھوری داستان ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جس کا انجام اب تک نہیں ہوا۔ ایسی داستان جس میں حسرت ہے۔ جس میں محبت ہے،جس میں بغاوت ہے۔ اس داستان کی یاد ہمیں مرتضی بھٹو کی 25ویں برسی ایک عجیب کیفیت میں مبتلا کردیتی ہے۔