جب کسی ملک کے حکمران کے زوال کے دن شروع ہوجاتے ہیں توملک کاکسان اورمحنت کش طبقہ سڑکوں پرآجاتاہے۔اس کلیے کوسامنے رکھتے ہوئے بھارتی کسانوں کی ملک گیرتحریک پریہ کہاجائے کہ مودی کے زوال کے دن شروع ہوگئے ہیںتوبے جانہ ہوگا۔آج جب یہ سطورحوالہ قلم کررہاہوںتوبھارتی کسانوں کی تحریک بارہویں دن میں داخل ہوگئی اورآج وہ ملک گیر ہڑتال منارہے ہیں اورانہیںبھارت کی18 اپوزیشن جماعتوں اور 10ٹریڈ یونینوں سمیت بینک ملازمین کی متعدد یونینوں کی بھی اس ہڑتال کی تائیدحاصل ہے۔دوسری طرف بھارتی کسانوں کی تحریک کی عالمی حمایت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اورکینڈا،امریکا سے لندن تک کسانوں کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف سے بھارتی کسانوں کی تحریک کی حمایت میں گزشتہ ہفتے آواز بلند کیے جانے کے بعد سے دنیا کے مختلف ملکوں میں اس تحریک کی حمایت میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔باہمی تعلقات متاثر ہونے کے دہلی کے انتباہ کے باوجود کینیڈا کے وزیر اعظم نے ایک بار پھر کسانوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ 6دسمبر2020ء اتوار کوعوام کے ایک جم غفیرجس میں سکھ اورمسلمان شامل تھے نے وسطی لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا اور پھر ٹریفلگر اسکوائر تک مارچ بھی کیا۔ برطانیہ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے 36 اراکین پارلیمان نے بھارتی کسانوں کے مظاہروں کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب کو ایک مشترکہ خط لکھ کر اس معاملے کو بھارت کی نریندر مودی حکومت کے ساتھ اٹھانے کی اپیل کی ہے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ مودی حکومت دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہوئے کسانوں کی پریشانیوں کو سنے اور ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ مظاہرین نے بھارت مخالف نعرے بھی لگائے۔ جبکہ امریکی شہر سین فرانسسکو میں بھی مقیم بھارتی شہریوں نے کسانوں کی حمایت میں ریلی نکالی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے بھی کسانوں کی حمایت سامنے آرہی ہے۔ دنیا کے دیگرممالک میں بھی بھارتی کسانوں کے مطالبات کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی بھارتی کسانوں کی حمایت کی ہے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھارتی کسانوں کی حمایت میں ایک اہم بیان دیا ہے۔ انٹونیو گوٹیرش نے کہا جہاں تک بھارت کا معاملہ ہے، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ، جیسا کہ پہلے بھی کہتا رہا ہوں ،عوام کو پرامن مظاہروں کا پورا حق حاصل ہے اور حکام انہیں ایسا کرنے دیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ منڈی کا نظام جاری رہے گا اور وہ موجودہ امدادی قیمتیں واپس نہیں لیں گے لیکن کسانوں کو اس پر شبہات ہیں جبکہ بھارتی کسانوں کا کہنا ہے کہ 'پہلے کسان ان نجی خریداروں کی جانب راغب ہوں گے کیونکہ یہ بہتر قیمتوں کی پیشکش کریں گے۔ حکومتی منڈیاں پھر بند ہونے لگیں گی اور چند سالوں کے بعد یہ خریدار کسانوں کا استحصال کرنا شروع کر دیں گے۔ ہمیں یہی خوف ہے۔ جب تک حکومت متنازعہ کسان مخالف قوانین کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک وہ دھرنے پر بیٹھے رہیں گے۔ گوکہ مودی سرکار نے قوانین میں بعض ترامیم کا عندیہ دیا ہے تاہم کسان قوانین کو پوری طرح واپس لینے سے کچھ بھی کم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔بھارت کے دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔ ادھر کسانوں کی حمایت میں مختلف ایوارڈ یافتگان کی طرف سے ایوارڈ واپس کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اولمپک میں باکسنگ میں بھارت کے لیے پہلا میڈل جیتنے والے باکسر وجیندر سنگھ نے دہلی میں سنگھو بارڈر پر کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مودی سرکار ان سیاہ قوانین کو واپس نہیں لیتی ہے تو وہ ملک کا اعلی ترین اسپورٹس ایوارڈراجیو گاندھی کھیل رتن واپس کردیں گے۔ 1980 ء کے اولمپک ہاکی گولڈ میڈلسٹ بھارتی کھلاڑی گرمیل سنگھ نے اس موقع پر کہا کہ انہوں نے ایوارڈ واپس کرنے کے لیے بھارتی صدر سے وقت مانگا ہے۔ اگر صدر رام ناتھ کووند نے وقت نہیں دیا تو وہ اپنا ایوارڈ راشٹرپتی بھون کے دروازے پر رکھ دیں گے یا وہاں سے گزرنے والے کسی شخص کو سونپ دیں گے۔ادھر چند دنوں قبل بھارتی ریاست پنجاب کے سابق وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل نے زرعی قوانین کی مخالفت اور کسانوں کی حمایت کرتے ہوئے بھارت کا دوسرا اعلی ترین سویلین ایوارڈ ’’پدم وبھوشن ‘‘حکومت کو واپس کردیا تھا۔اسے قبل بھارتی کسانوں اور مودی سرکار کے مابین مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت بھی جاری رہی جوناکام ہوئی ۔ بات چیت سے قبل کسان لیڈروں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مودی سرکار کے لیے آخری موقع ہے۔ وہ پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کر کے کسانوں کے حوالے سے تینوں سیاہ قوانین واپس لے ورنہ پوری دہلی کو بلاک کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ بھارتی ریاستوںبالخصوص ریاست ہریانہ اورپنجاب کے ہزاروں کسانوں نے پچھلے دوہفتوں سے دارالحکومت نئی دلی کا ایک طرح سے محاصرہ کر رکھا ہے اورنئی دلی کوجانے والے 5راستوں یاپانچ سرحدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔انہوں نے سڑکوں پر میلوں تک اپنے ٹرک، جیپ اور دوسری گاڑیاں کھڑی کر کے انہیں عارضی خیموں میں تبدیل کردیا ہے۔ ایک کسان لیڈرپروفیسردرشن پال کا کہنا ہے کہ یہ پورے ملک کے کسانوں کی تحریک ہے اور اس تحریک میں ملک بھر کے کسان اور ان کے لیڈرشامل ہیں۔اس سنگین صورت حال سے نکلنے کے لیے مودی سرکارمکمل طورپرناکام دکھائی دے رہی ہے ۔ واضح رہے کہ کسانوں کے احتجاج سے پیدا شدہ صورت حال سے صرف پنجاب ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ اس کا پورے ملک کی سکیورٹی پر بھی زبردست اثر پڑے گا۔