جنوب ایشیائی ملکوں کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے درمیان برف پگھلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگلے روز وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا کہ پاکستان سارک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنا چاہتاہے ۔ انہوں نے دِلّی سرکارسے کہا ہے کہ وہ اگر پاکستان آکر اجلاس میں شرکت نہیں کرنا چاہتی تو ویڈیو لنک سے ورچوئل شرکت کرلے لیکن تنظیم کے دوسرے رکن ممالک کو شریک ہونے سے منع نہ کرے۔ ماضی میںبھارت ایسا کرتا رہا ہے۔ یہ پاکستان کا ایک اہم سفارتی اعلان ہے اور اسلام آباد کے بھارت کی جانب قدرے بدلتے ہوئے روّیہ کی غمازی کرتا ہے۔ جب ڈیڑھ سال پہلے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری ختم کی اور اسے اپنے وفاق میں ضم کرنے کا قانون منظور کیا تو پاکستان نے احتجاج کرتے ہوئے بھارت سے سفارتی تعلقات کی سطح کم کرلی تھی۔ اسلام آباد اور دلّی میں دونوں ملکوںکے ہائی کمشنروں کی جگہ قونصلر سطح کے سفارت کار تعینا ت ہیں ۔ دو طرفہ سفر اور بیشتر تجارت بند ہے۔ پاکستانی حکومت کا موقف رہا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بحال نہیں کرتا اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے اور بالاکوٹ پر فضائی جارحیت کے بعد بھارت اور پاکستان میں صرف ایک مثبت پیش قدمی ہوئی ہے کہ گزشتہ برس فروری میں دونوں ممالک نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے 2003 میں کیے گئے ایک معاہدہ کو بحال کیا اور اس پر سختی سے عمل درآمد کا اعلان کرتے ہوئے اسکی پاسداری کی۔ پاکستان کا اچانک علاقائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بلانے پر اصرار کرنا اسلام آباد کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ جب کسی ملک سے آپ کے نارمل تعلقات بھی نہیں اس سے علاقائی تعاون کی پینگیں کیسے بڑھائی جاسکتی ہیں؟سارک ایسا فورم ہے جس میں جنوب ایشیا کے ملکوں کے مابین آزادانہ تجارت کو فروغ دینے کے معاہدے کیے گئے تھے ۔ ہم تو بھارت سے محدود تجارت نہیں کررہے، ترجیحی یا آزادانہ تجارت کیسے کریں گے؟ سارک سربراہی اجلاس ہوا تو پرانے معاہدوں کی تجدید ہوگی۔ علاقائی تعاون پر مبنی نئی قراردادیں منطور ہوں گی۔ بھارت اور پاکستان سمیت رکن ممالک کے درمیان نئے وعدے وعید ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ ان سوالات پر غور و خوص کے بعد ہی وزیرخارجہ نے بھارت کو دعوت دی ہے ۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ پہل کرنے سے پہلے دلّی سرکار کے ساتھ پس پردہ سفارت کی گئی ہو ۔عین ممکن ہے یہ اقدام عالمی برادری خاص طور سے امریکہ کے دباؤ کا نتیجہ ہو۔ امریکہ اور یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کم ہو۔ عالمی امن کا تقاضا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات بحال کریں‘ بات چیت کریں۔ چند ماہ پہلے وفاقی حکومت نے بھارت سے تجارت کھولنے کی اجازت دی تھی لیکن بعد میں فوراً یہ فیصلہ تبدیل کرلیا گیا۔وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا ہوا ہے اسکے ہوتے ہوئے بھارت سے سارک کے پردے میں تعلقات کی بحالی قوم کے لیے ایک کڑوی گولی ہوگی۔اسلام آباد کے اس اقدام کا ایک پہلو یہ ہے کہ کشمیریوں کوپیغا م جائے گا کہ کشمیر کے بھارت میں انضمام پر پاکستان تھک ہار کر بیٹھ گیا ہے اوربتدریج بھارت سے اپنے تعلقات بحال کررہا ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی مدد کرنا ترک کردے تو دو طرفہ بات چیت شروع ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے لیے کشمیریوں کومطمئن کرنا چیلنج ہوگا۔دوسری طرف ‘نریندر مودی کے لیے بھی سارک اجلاس میں شرکت آسان فیصلہ نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد پاکستان سے دشمنی پر رکھی ہوئی ہے۔ انہیں یوٹرن لینا پڑے گا۔ بہر حال‘ اگربھارتی حکومت سارک اجلاس کی پاکستانی دعوت قبول کرتی ہے اور اس تنظیم کا اجلاس منعقد ہوجاتا ہے تو یہ خطّہ میں اہم سفارتی پیش رفت ہوگی۔ پاکستان کی جانب سے سارک سربراہی اجلاس منعقد کرنے کی خواہش وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے اس اعلان کے عین مطابق ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کی پالیسی جیو پالیٹکس کی بجائے جیو اکنامکس ہے۔ جیو اکنامکس کا مطلب ہے کہ معیشت کا فروغ ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین مقصد ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم بھارت سے تجارت کو فروغ دینے کے لیے تعلقات بحال کرنا اور بڑھانا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد میں سوچ پروان چڑھی ہے کہ دنیاکی سیاست میںاہم تبدیلیاں آرہی ہیں۔ معیشت اور تجارت کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے۔ ایک ارب چالیس کروڑ آبادی پر مشتمل بھارت ایک بڑی معیشت ہے ۔ اسے وسط ایشیا اور روس سے تجارت کے لیے پاکستان اور افغانستان کے تجارتی راستے کی ضرورت ہے۔ یہ راہداری مہیا کرکے ہم اچھا خاصا مال بناسکتے ہیں۔ چین کو بھی وسط ایشیا کیلیے پاکستان کی راہداری درکار ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت نے وسط ایشیا سے تعلقات کو فروغ دینے کی خاطر روس کی مدد سے ان ملکوں کا ایک اجلاس دلّی میں منعقد کیا تھا۔ اگر پاکستان راہداری کیلیے بھارت سے براہ راست تعاون نہیں کرتا تو بالآخر چین اور روس کے دباؤ سے پاکستان تعاون کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اگر ہم بھارت سے براہ راست معاملہ طے کرتے ہیں تو راہداری دینے کے عوض اپنی کچھ شرائط منواسکتے ہیں۔ پاکستان کے سامنے دیگر ملکوں کی مثالیں بھی موجود ہیں جن کے درمیان تنازعات ہیں لیکن انہوں نے اپنے دو طرفہ سفارتی‘ تجارتی تعلقات ختم نہیں کیے۔ چین اور بھارت میں لداخ میں سرحد پر شدید اختلافات اور تناؤ ہے ۔ سرحدی جھڑپیں ہوچکی ہیں لیکن انہوں نے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔ گزشتہ برس چین اور بھارت کے درمیان ایک سو ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔اسی طرح چین کی تائیوان سے سخت کشیدگی ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان سخت مسابقت اور سرد جنگ کی کیفیت ہے لیکن ساتھ ساتھ کھربوں ڈالر مالیت کی تجارت چل رہی ہے۔ یورپی یونین اور روس کے درمیان کئی معاملات پر سخت کشیدگی ہے لیکن دو طرفہ تجارت اور سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ریاستی ادارے چاہتے ہیں کہ ہم بھی ایسی پالیسی اختیار کریں اور کشمیر کے تنازع کے باوجود بھارت سے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کر یں۔ شنید ہے کہ مختلف جماعتوں کے بڑے سیاستدانوں سے ریاستی اور حکومتی اہلکاروں نے حال میں پس پردہ ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں اعتماد میں لیاہے۔اس سمت میں سارک سربراہی اجلاس کا انعقاد ایک ابتدائی قدم ہوگا۔