رواں برس مئی کے انتخابات میں ہند توا کی پرچارک تشدد کی سیاست کو فروغ دینے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کے 17ویں عام انتخابات میں 543میں سے پارلیمنٹ کی 303نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔1984ء کے عام انتخابات میں محض 2سیٹیں جیتنے والی بی جے پی نے اس سال ملکی سیاست میں اپنی برتری ثابت کردی ہے۔ بی جے پی نے حالیہ انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی ہے اس کی 2014ئکے انتخابات میں کارکردگی کی روشنی میں توقع بھی نہ کی جا رہی تھی۔ حالیہ کامیابی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو ایوان بالا راجیہ سبھا میں بھی واضح اکثریت حاصل ہو جائے گی اور بی جے پی کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے قانون سازی کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ یا کھٹنائی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ انڈین نیشنل کانگریس جو ہندوستان کی آزادی کی بھی جدوجہد شامل تھی اور آزادی کے بعد 70سال تک بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت رہی ہے۔ آج اس جماعت کی پارلیمنٹ میں نمائندگی محض 10فیصد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اور بی جے پی ایوان میں مکمل مینڈیٹ کا مزہ لے رہی ہے اور ایسا بھاری مینڈیٹ تین دھائیوں بعد کسی جماعت کو ملا ہے۔ کمزور اپوزیشن کے علاوہ بی جے پی کو میڈیا کی بھر پور تائید بھی حاصل ہے مگر مودی ا س تائیدکو اپنی پارٹی اور اس کے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی ہندو قوم پرستی اور کارروباردوست (مادیت پرستی پر مبنی)پالیسیاں سماج کی ہم آہنگی کے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے شرح نمو بھی کم ہو رہی ہے۔ مودی کی جیت کا محرک عظیم بھارت کا نعرہ بنا۔ جسے بی جے پی کی چھتر چھایہ میں پلنے والی آر ایس ایس نے نئی زندگی دی ہے۔ یہ تنظیم 1925ء سے عظیم بھارت کا نعرہ لگاتی آ رہی ہے۔ اس تنظیم کا منشور جمہوری روایات آزادی اور ہم آہنگی نہیں بلکہ ہندو توا ہے۔ آر ایس ایس دو قومی نظریہ کی شدید حامی تورہی اور اس تنظیم نے ہندو اور مسلمانوں کے دو الگ الگ ملکوں کی پر زور حمایت بھی کی مگر اس کی وجہ اس کے ماضی کے عظیم بھارت کا تصور عظمت اکھنڈ بھارت تھا ۔ایسا عظیم غیر منقسم بھارت جو سری لنکا سے نیپال اور برماتک پھیلا ہو۔ آر ایس ایس کے حامیوں کے نزدیک علمیت کا تصورقومی تفاخر کی بنیاد پر قائم ہے۔ ان کے نزدیک ایک آئیڈیل ہندو سوسائٹی کا تصور یہ ہے کہ سکھ چین مت اور بدھ مت کو غیر ملکی سمجھا جائے۔ مسلمانوں‘ عیسائیوں ‘پارسیوں اور یہودیوں کو توکلی طور پر ہندوستانی نہیں سمجھا جائے گا اور ان کو بھارت میں رہنے کی اجازت صرف ایک صورت میں دی جا سکتی ہے اگر وہ ہندو رسم و رواج کو قبول کرنے پر آمادہ ہوں اور خود کو ہندو اکثریت سے کم تر اور الگ تسلیم کریں۔ مسلمانوں کو تو خاص طور پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت اورہندوئوں سے یکسر مختلف طرز بودو باش رکھتے ہیں۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر بھارتی شہریوں کی نظریاتی تبدیلی کیا مطلب ہے۔ آر ایس ایس جس عالمی منظر نامے پر اصرار کرتی ہے اس میں بھارت کی داخلی اور خارجی خودمختاری کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ایسا بھارت جس میں ریاست کے پاس کلی اختیار ہو۔ ریاست وسائل اکٹھا کرے اور عوام میں تقسیم کرے مگر تنقیدی لحاظ سے دیکھا جائے تو بی جے پی کے اقتدار میں حکومت کی ٹیکس جی ڈی پی کی شرح 17فیصد سے نہ بڑھ سکی جبکہ خطہ کے دیگر ممالک جنوبی افریقا کی 27فیصد‘ چلی 28فیصد اور نیپال کی 21فیصد ہے۔ اس سے بھی بدترین صورتحال روزگار کے حوالے سے ہے۔2011-12ء میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح 2فیصد تھی جو 2017-18ء میں بڑھ کر 6فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔آج بھارت میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ 4دھائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ بھارت کی تعلیم صحت اورسروسز سیکٹر یہاں تک پانی کی سہولیات سری لنکا اور لیبیا ایسے غریب ممالک سے بھی کم ہیں۔ حکومت کو سب سے بڑے اس چیلنج کا سامنا ہے کہ حکومت کے پاس اس حوالے سے کو قابل عمل اور موثر پالیسی ہی نہیں۔ اگر بی جے پی کی گزشتہ پانچ برس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو حکومت ان مسائل کے حل میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس حکومت کے دورمیں بھارت کی عسکری صلاحیت کا پول بھی بری طرح کھل چکا ہے۔ بھارت کی دفاعی صلاحیت بوسیدہ اور ہتھیار ناکارہ ہو چکے ہیں۔ بھارت کے پاس اسلحہ کے ذخائر بھی دو محاذوں پر جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ مگر مودی سرکار نے گزشتہ پانچ برس میں اس مسئلہ پر کوئی توجہ نہ دی۔ یہاں تک کہ بھارت ایک جوہری طاقت ہونے کے ساتھ خلا میں قدم بھی رکھ چکا ہے مگر دفاعی صلاحیت کا یہ عالم ہے کہ بھارت نے 1980ء میں لڑاکا طیاروں کی ملک میں تیاری کے جس منصوبے کا آغاز کیا تھا آج بھی فائٹر جیٹ کے پرزہ جات درآمد کئے جاتے ہیں۔اور دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا محض 2.4فیصد ہے۔ بی جے پی تمام تر توجہ اپنی اکثریت کو اپنے سماجی اور ثقافتی منشور کی بڑھوتری کے لئے استعمال کر رہی ہے تاکہ اپنے ہندو توا کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ بی جے پی ہندی کے خبط کا شکار ہے جب کہ ملک کی 58فیصد آبادی ہندی نہیں سمجھتی ۔خبط اس سے بھی خطرناک امر یہ ہے کہ بی جے پی جس قومیت کے تصور کو فروغ دے رہی ہے اس کی بنیاد صنفی اور نسلی تعصب پر استوار ہے۔ ذات پات پر سوال اٹھانے کی گنجائش ہی ختم کر دی گئی ہے جس کی وجہ نچلی ذات والے ہندوئوں پر تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا دلتوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی تو حکومت سرپرستی کر رہی ہے جبکہ بھارت میں بسنے والے 20کروڑ مسلمانوں کی حالت نہایت قابل رحم ہو چکی ہے۔مسلمان ہندوستان کی کل آبادی کا 15فیصد ہیں مگر ان پرکھلے عام حملے ہو رہے ہیں۔ گائو رکھشک جتھے مسلسل مسلمانوں پر تشدد کو ہوا دیتے ہیں اور ہجوم کو مسلمانوں کو مارنے کے لئے اکسایا جاتا ہے۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ یہ حملے حکمران جماعت کے ارکان اور عہدیداروں کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں ۔یہاں تک کہ مسلمان اراکین اسمبلی پر چن چن کر حملے کئے جا رہے ہیں۔ عصبیت کو بنیاد بنا کر بی جے پی اپنا ووٹ بنک بڑھا رہی ہے۔ بھارت کی شمالی اور جنوبی سیکولر ریاستوں میں بی جے پی کو پذیرائی مل رہی ہے مسلمان ووٹر ہندو اکثریت سے الگ تھلگ کیا جا رہا ہے جس سے ہندو مسلم خلیج میں بے انتہا اضافہ ہو گا جو بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ (بشکریہ دی کیبل‘ترجمہ:ذوالفقار چودھری)