راہول گاندھی نے سچ کہاکہ بھارت ریپ ستان بن چکاہے ۔ ایک عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ اور اس میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم کے 4,05,861واقعات رونما ہوئے، جن میں سے 59,853واقعات اتر پردیش میں ریکارڈ کیے گئے۔ خواتین بالخصوص دلت عورتوں پر جرائم کے معاملے میں یہ ریاست سرفہرست ہے۔رپورٹ کے مطابق 2018ء کے مقابلے خواتین کے خلاف بھارت میں جرائم میں7.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔بھارت میں اوسطا روزانہ عصمت دری کی 87وارداتیں ہوتی ہیں۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں 30.9فیصد زیادتی کے واقعات میں شوہر یا کوئی قریبی رشتہ دار ملوث ہوتا ہے۔ 21.8فیصد واقعات ہراساں کرنے کے تھے اور 17.9فیصد اغوا کے کیس درج کیے گئے۔بھارتی ریاست اتر پردیش کے ہاتھرس قصبے میں حال ہی میں ہندئووں کی اونچی ذات برہمن سے تعلق رکھنے والے چار افراد نے ہندئووں کی نچلی ذات دلت کی ایک29 سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کر کے اس کی کمر کی ہڈی توڑ دی۔ مہاراشٹرا کی صوبائی حکومت کے طرف سے فلم اسٹار کنگنا رناوت کو ہراساں کرنے کے معاملے کا تو قومی خواتین کمیشن نے از خود نوٹس لیا تھا مگر اس دلت لڑکی کی حالت زار پر کمیشن کے آنسو نہ ٹپکے۔ جرم کی پردہ پوشی کے لیے اس کے والدین اور دیگر افراد خانہ کی عدم موجودگی میں لڑکی کی لاش کو رات کے اندھیرے میں چتا کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کیس کو پولیس اس حد تک دبانے اور ملزمان کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے کہ افسران کا کہنا ہے کہ لڑکی کی موت تو ہوئی ہے مگر اس کے جسم میں سیمن کے کوئی نشان نہیں ملے۔ اس لیے وہ عصمت دری کا کیس درج نہیں کر رہے۔ آپ بھارت کے خوفناک چہرے کودیکھیں کہ ایک ایمبولینس ڈرائیور نے ایک19 سالہ کورونا وائرس کی مریضہ کو ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں ہی جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس سے قبل2018ء میں ایک چھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اس کی آنکھوں تک کو نقصان پہنچایا گیا تاکہ وہ مجرم کو پہچان نہ سکے۔ اسی سال ایک تیرہ سالہ بچی کے ساتھ جنسی تشدد کر کے اسے قتل کیا گیا اور اس کی آنکھیں نکال کر زبان کاٹ دی گئی تاکہ وہ شور شرابا نہ کر سکے اور بعد میں مجرمان کی پہچان نہ کر سکے۔ 2012ء میں جنسی زیادتی کے ایک دل دہلانے واقعے پرپورا بھارتی سماج سڑکوں پر تھا،لیکن پھر اتنی گہری نیند سے سوگیاہے کہ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں ایک 86سالہ عورت کے ساتھ ریپ کا واقعہ بھی اس کو نہیں جگا پا رہا ۔ جس شخص نے یہ درنگی کی وہ درندہ اس بوڑھی عورت سے 50سال سے بھی زیادہ چھوٹا تھا۔ بلاشبہ بھارتی معاشرہ خواتین کے لیے انتہائی غیر محفوظ بن چکا ہے۔ کیونکہ تین سال کی بچی سے لے کر 80سال کی معمر خاتون تک جنسی درندوں کے ہوس کاشکار بن چکی ہیں۔بھارتی ریاستوں کے دیہات میں تو دلت لڑکیوں کے لیے گھر سے کھیتوں تک جانا ہی محال ہو گیا ہے۔ کیونکہ اونچی ذات کے لڑکے تاک میں رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غریب اور دلت لڑکیاں ان کے سامنے مکمل طورپر بے بس ہیں اور وہ خود کو کسی بھی پکڑاورکسی بھی سزا سے مبراسمجھتے ہیں۔ نربھیا کو تو انصاف ملا مگر ایسے ہزاروں کیس عدالتی غلام گردشوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ عدالتی کاروائی کے دوران ایک خاتون کو اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کی تفصیلات اور واقعے کی باریکیاں بتانی پڑتی ہیں۔ پھر وکیل صفائی اس کو بے شرم اور بے راہ رو ثابت کرنے کی جس طرح کوشش کرتا ہے، و ہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔بس ایک اصلاح اب یہ ہوئی ہے کہ لڑکی اور گواہوں کے بیانات اب کھلی عدالت میں نہیں لیے جاتے ہیں۔ ورنہ جنسی کہانیاں سن کر لذت اٹھانے والے بیمار ذہنیت والے افراد اس دن کمرہ عدالت میں جوق در جوق موجود ہوتے تھے۔ بھارت میں عصمت دری کے کیسوں میں انصاف کے پیمانے بھی الگ ہوتے ہیں۔ اسکی مثال یہ ہے کہ 2018ء میں مقبوضہ جموں کے پاس کٹھوعہ تحصیل میں جب آٹھ سالہ مسلمان لڑکی آصفہ کی عصمت دری کر کے اس کے سر کو پتھروں سے کچل کر شہید کر دیا گیا۔ چونکہ لڑکی مسلمان خانہ بدوش قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، تو مقامی ہندو اور ان کے لیڈران نے مجرمان کو بچانے کی خاطر باضابط جلسے اور جلوس نکالے۔ ان میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزرا نے بھی شرکت کی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آصفہ کا معصوم اور مظلوم چہرہ، نربھیا کی طرح کسی کا ضمیر نہیں جگا پایا۔ اگر مجرم اونچی ذات کا ہے اور نشانہ بننے والا نچلی ذات کا یا مسلمان ہے، تو انصاف کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ یہی کچھ ہاتھرس اور کھٹوعہ میں دیکھنے کو ملا۔ دسمبر 2012ء میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پانچ افراد نے ایک طالبہ نربھیا کو چلتی ہوئی بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ساتھ ہی اسے بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ نربھیا تو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی مگر اس واقعے نے کس طرح ملک کے ضمیر کو جھنجوڑا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ پورے بھارت میں ریپ اور خواتین پر مظالم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف احتجاجی دھرنے اور مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کے بعد کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور سنگین نوعیت کے ریپ کے معاملات میں سزا بڑھا کر عمر قید اور سزائے موت کر دی گئی۔ لگتا تھا کہ مردہ سماج میں نئی روح پھونک دی گئی ہو، جو اب خواتین پر کسی بھی طرح کا تشدد برداشت نہیں کرے گا۔اس معاملے کو لے کر سال بھر بعد عوام نے نئی دہلی میں کانگریس حکومت کا بستر گول کر کے عام آدمی پارٹی کو مسند اقتدار تک پہنچایا۔ 2014ء کے عام انتخاب کی انتخابی مہم میں نریندر مودی نے خواتین کے مسائل کو زور و شور سے اٹھایا اور اقتدار میں آتے ہی ’’بیٹی بچا اور بیٹی پڑھا ئو‘‘کا نعرہ دیا۔ مگراس کے باوجودبھارت میں جنسی درندوں کی درندگی کے واقعات تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔