بھارت کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے بعد پاکستان نے سفارتی تعلقات کو محدود اور تجارتی عمل کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کشمیر پر بھارت کے یکطرفہ اقدام اور پرامن حل کے لئے مسلسل حیل و حجت کی وجہ سے پاکستان اور کشمیری باشندوں کے لئے سنگین مشکلات پیدا ہو چکی ہیں۔ بھارتی اقدام سفارتی اور سیاسی معاہدوں سے انکار کے مترادف ہے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات کا رہنا بعیداز امکان ہے۔ بھارت نے ماضی میں ہر رابطے کا ذریعہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔ حتیٰ کہ جب ایسا کرنا انسانی پہلو سے نادرست تھا۔ معروف بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل ٹریڈ سنٹر کی رپورٹ پاک بھارت تجارت سے متعلق حقائق پیش کرتی ہے۔ آئی ٹی سی دنیا کے 200سے زائد ممالک کے درمیان 5300اشیا کی تجارت کے ماہانہ‘ سہ ماہی اور سالانہ اعداد و شمار مرتب کرتا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2017ء کے دوران پاکستان سے بھارت برآمد کی گئی اشیاء سے آمدن 408544ڈالر تھی جبکہ بھارت سے درآمدکی گئی اشیاء 1688267ڈالر کی تھیں۔ 2018ء میں پاکستان سے بھارت کو برآمد کی گئی اشیاء کی مجموعی مالیت 383ملین ڈالر سے کچھ زیادہ رہی لیکن اس دوران پاکستان نے اس مالیت کے صرف دو فیصد کے برابر اشیاء بھارت کو برآمد کیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی عالمی تجارت خسارے میں جا رہی ہے۔ صرف بھارت کی بات نہیں بڑے ہمسائے چین کے ساتھ تجارت اپنا توازن کھو چکی ہے۔ یہی تجارتی خسارہ قومی کرنسی پر دبائو کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور حکومت کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم کرنا پڑتی ہے۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان بھارت سے جو چیز سب سے زیادہ مقدار میں منگواتا ہے وہ کپاس ہے۔ پاکستان نے 2018ء میں بھارت سے 466ملین ڈالر کی کپاس منگوائی۔ 2014ء سے لے کر 2018ء تک ہر سال پاکستان 4فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ بھارت سے کپاس منگواتا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت سے تجارت معطل ہونے سے پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بین الاقوامی منڈی میں سب سے ارزاں اور با سہولت بھارتی کپاس حاصل ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف ایک دوسری رپورٹ ہے اس کے اعداد و شمار سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنے دور میں پیش کرتے رہے ہیں۔ اسحق ڈار وزیر خزانہ ہوتے ہوئے اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان میں 2013ء کے بعد ہر سال کپاس کی فصل کا پیداواری رقبہ کم ہوتا گیا۔ وہ بجٹ خسارہ بڑھنے کی ایک وجہ کپاس کی کم پیداوار بتاتے رہے ہیں۔ کیا اس بات کو محض اتفاق سمجھا جائے کہ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے دور میں کپاس کی مقامی پیداوار کو بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی اور بھارتی کپاس کو پاکستانی منڈی میں جگہ بنانے کا موقع دیا گیا۔ دو طرفہ تجارت سے وابستہ تاجر حضرات کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت حجم کے اعتبار سے بھارت سے کہیں چھوٹی ہے۔ پاکستان کی برآمدات تیزی سے سکڑ رہی ہیں۔ پاکستان بھارت کو چونے کا پتھر‘ سیمنٹ‘ نمک‘ گندھک اور دیگر معدنیات برآمد کر کے سالانہ 96ملین ڈالر کما رہا ہے۔ تجارت پیشہ افراد کے خیال میں دو طرفہ تجارت رکتی ہے تو رہی سہی برآمدات مزید کم ہو سکتی ہیں۔ پاکستان معدنیات کے علاوہ بھارت کو پھل‘ خشک میوہ جات‘ ترشاوہ پھلوں کا چھلکا اور خربوزہ برآمد کرتا ہے۔ پاکستان سے سالانہ 23ملین ڈالر کی چینی اور چینی سے بنی مٹھائیاں بھی بھارت کو برآمد کی جاتی ہیں۔ بھارت نے 1996ء میں پاکستان کو تجارت کے لئے سب سے پسندیدہ ملک(موسٹ فیورٹ نیشن) کا درجہ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس ملک کو یہ درجہ دیا جائے اس کے ساتھ تجارتی لین دین کا حجم مساوی ہو۔ بھارت نے پاکستان کو یہ درجہ دینے کے بعد ایک طرف کشمیر‘ دریائی پانی‘ افغان تنازع اور خطے میں اسے تنہا کرنے کی کوششیں شروع کیں اور دوسری طرف افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا کی منڈیوں تک رسائی کے لئے چارہ جوئی کی۔ بھارت کی عالمی سیاست کاری اور سفارتی اہداف میں پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اس لئے پاکستان میں ایک حلقے کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی خواہش کے باوجود اس معاملے میں گرمجوشی دکھانے سے پرحکمت گریز کیا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے کے فوری بعد بھارت نے پاکستانی مال پر ڈیوٹی بڑھا کر 200گنا کر دی۔ چند ماہ قبل مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں خودکش حملے کے نتیجے میں 40بھارتی سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ اس سے دو طرفہ تجارت ایک بار پھر متاثر ہوئی۔ فروری 2019میں دوطرفہ تجارتی حجم 164ملین ڈالر تھا‘ جون آتے آتے 104ملین ڈالر تک آ گیا۔ تاہم اس گراوٹ کا سردست زیادہ نقصان بھارت کو ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور چین نے باہمی تجارت کو متوازن بنانے پر بات چیت کی ہے۔ پاکستان کی صنعتوں کے لئے بھارت سے کیمیکلز اور بعض موسمی سبزیاں آتی ہیں۔ چین کیمیکل کی متبادل منڈی ہے جہاں سے زیادہ سہولت کے ساتھ سامان پاکستان آ سکتا ہے۔ معدنیات نمک اور دیگر برآمدی مال کے لئے وسط ایشیا کی منڈیاں‘ مشرق بعید کے ممالک اور خطے کے دوسرے ممالک متبادل انتخاب ہو سکتے ہیں۔ یقینا دو طرفہ تجارت کے معطل ہونے سے بھارت ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہے گا جو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پیدا ہو رہے ہیں۔ تنازع کشمیر صرف علاقے کا جھگڑا نہیں یہ پاکستان کی بقا کے لئے بھارت کے پیدا کردہ خطرات کو ختم کرنے کا معاملہ ہے۔ پاکستان کی طرف سے تجارتی تعلقات معطل کرنا درست فیصلہ ہے مگر حکومت کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا چاہئیں کہ اس فیصلے کے منفی اثرات پاکستان کی صنعت اور تجارت پر مرتب نہ ہو سکیں۔