گو کہ کہ دونوں تامل پارٹیاں اپنے صوبہ کو حق خود اختیاری تو نہیں دلا سکیں، مگر انہوں نے اس کو خوشحال بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صوبہ کو وسائل مہیا کروانے کیلئے انہوں نے دہلی میں اپنے اثر و رسوخ کا بھر پور استعمال کیا۔ اقتصادی لحاظ سے تامل ناڈو اسوقت بھارت کے ترقی یافتہ صوبوں میں شامل ہے۔ زراعت میں خود کفالت کے علاوہ یہاں صنعتوں کا جال بچھا ہو اہے۔ بھارت کی دو ٹریلین ڈالر کی معیشت میں اسکا حصہ 210بلین ڈالر ہے۔ بھارت میں جہاں اوسط فی کس آمدن 86ہزار سالانہ ہے، وہیں اس صوبہ میں یہ ایک لاکھ 28ہزار ہے۔مگر خوشحالی کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی یہ صوبہ سرفہرست ہے۔ انتخابات میں یہاں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ جے جیہ للتا کے انتقال کے بعد ان کی قریبی سہیلی وی کے ششی کلا کے بھتیجے ٹی ٹی وی دھیناکرن نے ان کی اسمبلی سیٹ سے قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا، مگر ان کی پارٹی نے ا ن کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ایک دیگر لیڈر کو میدان میں اتارکر اسکو پارٹی کا آفیشل نشان دلایا۔ الیکشن کمیشن نے دھینا کرن کو آزاد امیدار کے بطور پریشر کوکر چناوی نشان تفویض کیا۔بس پھر کیا تھا انہوں نے پورے علاقہ میں پریشر کوکر بانٹنے شروع کئے۔ کئی علاقوں میں پریشر کوکروں میں پانچ تا دس ہزار تک کے کوپن بھی تھے ، جن کی ادائیگی امیدوار کی جیت کے ساتھ مشروط تھی۔چناچہ دھینا کر ن نے پارٹی کے آفیشل امیدوار کو چاروں شانے چت کردیا۔ اب سیاسی پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ اگلے انتخابات میں پریشر کوکر کے بجائے دھینا کرن کو کوئی بھاری بھرکم نشان تفویض کیا جائے ، جس کو وہ ووٹروں میں تقسیم نہ کرنے پائے۔ جے للتا کے برعکس کروناندھی پیریا ر اور انًا درائی کی طرح آخری دم تک ہندو ازم خاص طور پر برہمن واد کے مخالفین میںسے تھے۔ وہ کئی ناولوں، کہانیوں کے تخلیق کار کے علاوہ فلموں کیلئے اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔ ان کی مشہور ناول پاراسکتی برہمن واد اور اسکے ذریعے جکڑے نظام پر ایک کاری وار ہے۔ اسی نام سے اس پر ایک تامل فلم بھی بنائی گئی تھی ، جو خاصے ہنگامے اور سنسر کے بعد 1952میں ریلیز ہو گئی تھی۔ وہ سری لنکا میں میں تامل علیحدگی کے حامی بھی تھے۔ 1997میں ایک جوڈیشل کمیشن نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے راجیو گاندھی کے قتل میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے سربراہ پربھاکرن کی معاونت کی تھی۔ کروناندھی کی پارٹی اسوقت اندر کمار گجرال کی قیادت میں مرکز کی مخلوط یونائیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ میں شامل تھی اور اسکے کئی لیڈران وزارتی کونسل میں تھے۔ کانگریس نے اس جوڈیشل رپورٹ کو بنیاد بناکر اسوقت کی گجرال حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ بعد میں ایک دن پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں انہوں نے چند صحافیوں اور اراکین پارلیمان کی معیت میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آخر کانگریس یا دیگر پارٹیاں کس منہ سے انکو سری لنکا کے تامل باغیوں کی حمایت کے الزام سے نوازتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 1984ء میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقہ جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی۔ ان کے مطابق مسزگاندھی نے سری لنکا کو1971ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔ سر ی لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکہ جانے والے سویلین جہازوں کے لئے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑتے ہوئے تامل ناڈوکو مستقر بنا کر تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لئے تیارکرنا شروع کردیا تھا۔اور پھر 1987ء میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں کس طرح وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی موجودگی میں 40لاکھ روپیوں سے بھرا ایک سوٹ کیس پربھاکرن کے حوالے کیا۔ کروناکرن رک رک کر انگریزی میں گفتگو کر رہے تھے۔ بیچ میں وہ بے تکان تامل بولنا شروع کرتے تھے ، تو ان کے دست راست اور مرکزی وزیر ٹی بھالو اسکا انگریزی میں ترجمہ کرتے تھے۔ ان کو شکایت تھی کہ سری لنکا کو آگ کے حوالے کرنے او ر وہاں کی تامل آبادی میں علیحدگی پسند رجحانات کو آتش دینے کے بعد قومی پارٹیوں کے لیڈران ہمیں ایل ٹی ٹی ای کی حمایت کا الزام دیتے ہیں۔2009 میں سری لنکا کی فوج کی طرف سے ایل ٹی ٹی کے خلاف آل آوٹ آپریشن، پربھاکرن کی ہلاکت اور اسپر بھارتی حکومت کی خاموش رضامندی سے وہ خاصے ناراض تھے۔ کروناندھی کی موت کے بعد سے اب تک ان کے 21حامیوں نے غم کی شدت سے خود کشی کر لی ہے۔ دسمبر 2016میں جیہ للتا کا انتقال ہوا تو اسی طرح ریاست بھر میں خود سوزی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ دنیا شاید اس جذباتیت کو مضحکہ خیز یا حیرت انگیز محسوس کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ جنوبی بھارت میں سیاست دانوں اورغریب و کمزور طبقہ کے درمیان رشتہ دوستی کا ہوتا ہے نہ کہ شمالی بھارت کی طرح مفاد پرستی اور استحصال کا۔ شمالی بھارت میں لوگوں کے دلوں میں سیاست دانوں کے خلاف ناپسندیدگی بلکہ بسا اوقات نفرت کے جذبات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ قصہ مختصر تامل ناڈو کی سیاست اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے۔ کرو ناندھی کے جانشین اور صاحبزادے ایم کے اسٹالن جنہوں نے فی الحال پارٹی کا کارو بار سنبھالا ہوا ہے، بھی کسی موذی مرض کا شکا ر ہیں۔ صوبہ کے ایک اور اہم سیاسی لیڈر وجے کانت بھی علیل ہیں۔ اس صورت حال میں اندیشہ ہے کہ ان کی پارٹیاں بکھر سکتی ہیں اور قومی پارٹیوںکانگریس اور بی جے پی کے لئے جگہ بن سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ 60 کی دہائی کے بعد جس طرح دراوڑ پارٹیوں نے تامل قوم پرستی کو ایڈریس کرتے ہوئے حکومت سازی کرکے علیحدگی پسند رجحانات پر لگام لگا کر رکھ دی تھی، قومی پارٹیوں کے آنے سے یہ رجحانات دوبارہ پنپ سکتے ہیں۔ اس کی واضح مثال جموں و کشمیر ہے۔ چاہے1987ء ہو یا 2008ء یا پھر 2010ء یا 2016ء بھارت کی قومی پارٹیوں کی مداخلت سے دبی ہوئی چنگاریاں آگ میں تبدیل ہوتی رہی ہیں، جن کو مقامی پارٹیاں شیخ عبدللہ یا مفتی سعید کی صورت میں دبا کر رکھتی ہیں۔ (ختم شد)