مسلمانان حیدرآباد کے لئے اس سے زیادہ افسوسناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ یکے بعد دیگرے پانچ مساجد کو حکومت نے شہید کردیا ۔ مساجد اللہ کا گھرہیں اور وہی انکا مالکہے۔ مساجد دنیا کی سب سے مقدس اور قابل احترام جگہیں لیکن ایک سیکولر ملک میںجس ریاست کے سربراہ ہندو مسلم بھائی چارہ کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اور سابقہ نظام کی مدح سرائی میں جو رطب اللسان رہتے ہیں مسلسل مساجد کی شہادت پر خاموش ہیں اور تعمیر نو کو لیکر کسی قسم کا تیقن دینے سے قاصر ہیں جبکہ سکریٹریٹ کی تعمیر نو، منصوبہ بندی، نقشہ وغیرپر تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تلنگانہ کے چیف منسٹر مساجد کی اہمیت و تقدس سے نابلد ہیں؟ کیا مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ اور کیا مسلمانوں کے تئیں ان کی خوش کن بیان بازی محض ایک سیاسی چال ہے؟ حیرت و تعجب ہے کہ وہ ملت جس نے ’’بابری مسجد‘‘ کی بازیابی کے لئے برسوں جدوجہد کی، ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اربوں روپے خرچ کئے، مختلف عدالتوں میں صبر آزما قانونی جدوجہد کی اور مخالف فریق کی مختلف چالوں کو ناکام بنانے کے لئے مختلف داؤ پیچ کرتی رہی لیکن تلنگانہ میں مساجد کی شہادت کو لیکر کیوں خاموش ہے؟ آخر وہ ایمانی حرارت کیوں کمزور ہوگئی، غیرت ایمانی کہاں چلی گئی اور اللہ کے گھر کی بازیابی اور تعمیر نو کا جذبہ کیوں سرد پڑ گیا؟ مساجد کی شہادت پر مسلم قیادت اور دیگر ملی، دینی اور مذہبی جماعتوں اور اداروں کی جانب سے اظہار افسوس یا اظہار مذمت کے بیانات محض بیان بازی کی رسم کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ عوام الناس کی نظریں قیادت پر ہیں مختلف جماعتوں کے سربراہوں کے ردعمل پر ہیں لیکن مساجد کی شہادت کے بعد ملی اور مذہبی قیادت کی عملاً بے حسی تعجب خیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’مساجد کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہی آباد کرتے ہیں‘‘۔ یہ کیسے اہل ایمان ہیں جو دعویٰ ایمان بھی کرتے ہیں اور ملت کی قیادت و سیادت کے عظیم منصب پر بھی فائز ہیں جنہیں اپنے گھروں کو محلات نما بنانے کا بھی ذوق ہے لیکن اللہ کے گھر کی مسماری پر انہیں کوئی افسوس نہیں، اس کی تعمیر نو کے لئے کوئی فکر نہیں اور تعمیر نو کی جدوجہد کا کوئی منصوبہ نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا اور متاع دنیا جب اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر غالب آجاتی ہے تو دین و ایمان زندگیوں سے رخصت ہو جاتا ہے۔ نہ احکام شریعت کا پاس ہوتا ہے اور نہ شعائر اللہ کی حفاظت کی فکر ستاتی ہے۔ متاع دنیا جب کسی کا مقصد حیات بن جاتا ہے تو حکمرانوں کے دربار پر حاضری ، حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانا، ان کی بداعمالیوں اور غلط کاریوں پر خاموشی اختیار کرنا، مختلف عہدے اور مناصب حاصل کرنا، جاگیریں و جائیدادیں بنانا اور اپنے حواریوں کے معاملات کے لئے پیرویاں کرنا ان کا طرہ امتیاز بن جاتا ہے، پھر شیطان ان کے سارے اعمال کو خوشنما بنا دیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی گھاٹی میں دور تک نکل جاتے ہیں۔ مساجد کی شہادت کوئی اتفاقی حادثہ ہرگز نہیں ہے بلکہ سکریٹریٹ کی تعمیر نو کا حصہ ہے جس پر بڑی رازداری سے عمل کیا گیا۔ مساجد کی شہادت گویا کہ ملت اسلامیہ کے دین و ایمان کا امتحان ہے کہ وہ اللہ کے گھر کی تعمیر کے لئے کیا کرتے ہیں۔ اگر ان مساجد کی تعمیر نو میں ملت اسلامیہ کامیاب ہو جاتی ہے تو آئندہ کسی اور مسجد کی طرف کوئی بری نظر نہیں کرسکے گا لیکن خدانخواستہ اگر ملت اسلامیہ اس میں ناکام ہو جاتی ہے تو مساجد کی بے حرمتی یا شہادت کا ایسا سلسلہ پھر کبھی نہیں رکے گا۔ مقامی قائد جنہیں ہندوستان کے مسلمانوں کا قائد بننے کی بڑی تمنا ہے اور جو فخر سے کہتے ہیں کہ وہ حکومت کے حلیف اور اچھے دوست ہیں، ایک مہینہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا لیکن وہ حکومت سے مساجد کی سابقہ مقامات پر تعمیر کی ضمانت نہیں لے سکے ! آخر اللہ کے گھر کی تعمیر نو کا مطالبہ کرنے میں کونسی مصلحت اور حکمت مانع ہے؟ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کی تباہی و بربادی اور ذلت و خواری کی وجہ اکثر خود غرض اور مفاد پرست قیادتیں رہی ہیں۔ جب قیادتیں دین کی سربلندی، ملت کی تعمیر و ترقی اور ملت کے مفادات کے مقابلہ میں ذاتی مفاد، خاندانی منقعت اور جماعتی فوائد کی اسیر ہو جاتی ہیں تو ملت بے آواز اور بے وزن ہو جاتی ہیں پھر ایسی قیادتیں بھی اپنی ساکھ سے محروم ہو جاتی ہیں۔ تلنگانہ میں مساجد کی شہادت کے واقعات کو مستقلاً روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ملت اسلامیہ ان دونوں مساجد کی تعمیر نو کی جدوجہد کرے اور کامیابی تک چین سے نہ بیٹھے۔ اس سلسلہ میں جہاں دستخطی مہم ہووہاں یہ بھی ضروری ہے کہ حکمران اور اپوزیشن تمام عوامی نمائندوں کے زریعے اس پر دباؤ ڈالا جائے، مساجد کی دستاویزات کے ساتھ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے اور خود چیف منسٹر سے ملکر مساجد کے مقام اور تقدس کو تفصیلی طور پر واضح کرتے ہوئے تعمیر نو نہ ہونے کی صورت میں عواقب و نتائج سے آگاہ کیا جائے۔ اس طرح کی کوششوں کے بغیر مساجد کی تعمیر نو مشکل امر ہوگی۔ ملک میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمان نہ صرف دین و ایمان پر جمے رہیں بلکہ اپنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے بھی فکرمند اور کمربستہ رہیں اگر انہوں نے ان معاملات میں غفلت کا مظاہرہ کیا تو نہ ان کا دین و ایمان محفوظ رہے گا اور نہ ہی ان کی عبادت گاہیں ہی باقی رہ پائیں گی۔ تلنگانہ میں مذہبی، دینی اور ملی قائدین کی بے عملی اور عہدے و مناصب کے لئے حکمراں جماعت کی تائید اور حکومت کی بداعمالیوں پر خاموشی ایک سانحہ سے کم نہیں ہے، حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’عنقریب تم امارت و حکومت کے حریص ہو جاؤ گے لیکن وہ قیامت کے دن ندامت کا باعث ہوگی‘‘۔ کاش ہمارے رہنما، قائدین اور اکابرین اپنے رویہ اور عمل کا محاسبہ کریں اور آخرت کی ندامت سے بچنے کی فکر کریں… کریں کس سے اپنی تباہی کا شکوہ کہ خود رہنما رہزنوں سے ملے ہیں