بھارتی حکومت کے پیدا کردہ اشتعال کے باعث پورے بھارت میں پاکستانی اور کشمیری باشندوں کو جان کا خطرہ لاحق ہو گیاہے۔ ہندو غنڈے پاکستانی سفارتی عملے کو دھمکی آمیز فون کر رہے ہیں اور ہائی کمیشن کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ دوسری طرف بھارت نے پاکستانی مال بردار ٹرک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ راجستھان میں مختلف زیارتوں کے لئے گئے پاکستانی شہریوں کو 48گھنٹے میں واپس جانے کی وارننگ دی گئی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ایسی ویڈیوز پریشان کن ہیں جن میں بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں اورکالجوں میں زیر تعلیم کشمیریوں کو ان کے کمروں سے باہر نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان طلباء کو پاکستان کے خلاف نعرے لگانے کو کہا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت پلوامہ حملے کے متعلق ایک مخصوص سوچ کو پروان چڑھا رہی ہے۔ انتہا پسندوں کو کھلی چھٹی دے کر بھارت ریاستی قانون‘ انسانی حقوق اور مسلمہ بین الاقوامی ضابطوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ گزشتہ کچھ مدت سے بھارت پاکستان سے رابطے محدود رکھنے کی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے۔ دونوں ملک جنوبی ایشیا کی اہم طاقتیں ہیں۔ دونوں ایٹمی ریاستیں ہیں۔ ایک دوسرے سے جڑی سرحدوں اور آبی وسائل کا اشتراک انہیں یکساں طور پر فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ آبادی کے حوالے سے دونوں ریاستوں کو چیلنج درپیش ہے۔ صرف بھارت کی بات کی جائے تو وہاں آج بھی 60کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ چھت میسر ہے نہ دو وقت کی روٹی دستیاب ہے۔ جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے ان بھارتی شہریوں کے لئے اربوں کھربوں کے دفاعی معاہدوں کی اور اسلحہ کی خریداری کی کوئی اہمیت نہیں۔ سوا ارب آبادی کا ملک بھارت اس وقت تک مہان نہیں ہو سکتا جب تک اس کی توجہ جنگ کی بجائے امن کی پالیسیوں کی جانب نہ ہو۔ اس وقت بھارت اسلحہ کی خریداری کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ بلا شبہ اس سے علاقائی اور عالمی امن کو خطرات لاحق ہوں گے۔ قانون آزادی ہندکے تحت ہندوستان کی تمام ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی پسند سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ ایسی بھی ریاستیں تھیں جو پاکستان کا حصہ بننا چاہتی تھیں مگر ان کے جغرافیہ نے انہیں بھارت کا حصہ بننے پر مجبور کیا۔ کشمیر تاریخی طور پر پاکستان کے علاقوں سے جڑا ہوا ہے۔ قدیم زمانوں سے راولپنڈی سے کشمیر جانے والا راستہ موجود ہے۔ اہل کشمیر کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کا حصہ بنیں مگر ہندو حکمران نے بھارت کے ساتھ مل کر سازش رچائی اور اچانک بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ کشمیر میں آباد مسلمان اکثریت کے لئے ناقابل قبول تھا اس لیے انہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ یہ مزاحمت موثر ثابت ہوئی اور حریت پسند دستوں نے کشمیر کا بڑا علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد کرا لیا۔ بھارت نے جنت نظیر خطے کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھا تو اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا۔ پاکستان اس معاملے میں کشمیریوں کا وکیل اور حامی بن کر موجود رہا ہے۔ پاکستان اب اس تنازع کا اہم فریق ہے۔ بھارت ایک عرصہ سے یہ مہم چلا رہا ہے کہ پاکستان کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی سرپرستی کر رہاہے اور اپنے لوگوں کو لڑنے کے لئے مقبوضہ کشمیر بھیج رہا ہے۔ یہ الزام حریت پسند کشمیریوں کی قربانیوں کی توہین کے متراف ہے۔ برہان الدین وانی اور اب پلوامہ حملے میں خودکش عادل ڈار نسلوں سے کشمیری اور کشمیر میں رہنے والے ہیں۔ کشمیری عوام اب سڑکوں اور گلیوں میں بھارتی سکیورٹی فورسز سے دوبدو لڑنے پر تیار ہیں۔ برسہا برس سے بھارت نہتے کشمیریوں پر جدید ہتھیار اور تباہ کن جنگی ٹیکنالوجی استعمال کرتا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں کشمیری عوام نے ہمیشہ پتھر پھینکنے پر اکتفا کیا مگر اب کشمیری نوجوانوں کی سوچ میں تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ بھارت کے اپنے ذرائع ابلاغ یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے رویے نے کشمیریوں کوخودکش حملوں پر مجبور کیا ہے۔ ریکارڈ شاہد ہے کہ پاکستان نے خطے کے امن کے لئے ہر معاملے کو مذاکرات سے حل کرنے کی حمائت کی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں امریکہ اپنے نیٹو اتحادیوں سمیت آ بیٹھا۔ امریکہ سترہ سال سے بے نتیجہ جنگ لڑ کر تھک گیا۔ ایسے وقت میں بھارت نے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ یہ منصوبہ بندی کسی حد تک کامیاب رہی۔ مگر پھر پاکستان کا موقف درست تسلیم کیا گیا۔ اس سے دنیا میں پاکستان کا وقار بڑھا اور اس کی دانش مندی کی ستائش ہوئی۔ کشمیر اور دہشت گردی کے امور پر بھی پاکستان کا یہی موقف رہا ہے۔ بھارت جب ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے نام لے کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے تو پاکستان اپنے شہریوں کے ملوث ہونے کے ثبوت طلب کرتا ہے۔ بھارت نے اپنا دورہ کرنے والے کئی غیر ملکی سربراہوں کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ میں ممبئی حملے کی تحقیقات کیلئے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ پلوامہ حملے کے بعد بھی بھارت نے جلد بازی میں سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا حالانکہ خود کش حملہ آور نہ پاکستانی ہے نہ پاکستان سے گیا۔ بھارت اپنی خفت مٹانے کے لئے روز کوئی نہ کوئی ایسا بیان داغ رہا ہے جس سے معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھتا جا رہا ہے۔ بھارت کا طرز عمل خطے میں کسی بڑی جنگ یا تصادم میں بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ بھارت کو یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ ہندو انتہا پسند جس طرح مسلمانوں‘ کشمیریوں اور پاکستانیوں پر تشدد کر رہے ہیں اس سے بھارت کے ٹوٹنے کے امکانات واضح ہو رہے ہیں۔