بھارت 1962ء میں چین سے عبرتناک شکست کے بعد ڈبل فرنٹ کے خیالی تصور سے دل بہلا رہا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو چین روز اول سے بھارت سے دوستی کا خواہاں رہا جبکہ بھارت نے 1947ء سے 1960ء سے اپنے دوغلے پن ، مزاحمت اور تنازعات کے باعث چین کو اپنا دشمن بنا لیا۔ بھارت نے مغربی دنیا کو خوش کرنے کے لئے پاکستان سے مقابلے کے لئے دو محازی واویلا شروع کیا۔ آج وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ اب مودی نے متنازعہ علاقوں کو یونین ٹیر ٹری میں شامل کر کے ان دو محاذوں کو ایک میں تبدیل کر دیا ہے جہاں تک دو محاذوں کی عملی حقیقت ہے تو اس کے لئے قومی قوت ،خود انحصاری اور عسکری لحاظ سے قومی ڈھانچہ تشکیل دینا ہوتا ہے جس کے لئے عسکری ذرائع نقل و حمل اور زمینی حملہ آور فوج، فضائی کور کے ساتھ سمندری حدود میںنقل و حمل کے لئے بحیرہ عرب سے جنوبی چین کے سمندروں تک کو محفوظ بنانا ضروری ہے۔ چین کے خلاف بھارت نے توکبھی اندرونی ضروری تبدیلیاں کیں نا ہی فوج کے محدود وقت میں سرعت سے ایک سے دوسرے محاذ پر منتقل کرنے کے لئے کوئی عملی صلاحیت حاصل کی جبکہ بھارت کی بحری فوج کبھی برائون واٹر سے ہی نہ ابھر سکی۔ بالا کوٹ کے بعد پاکستان بھارت کی جوہری ہتھیاروں سے لیس سب میرین کو تباہ کر سکتا تھا مگر بھارتی آب دوز کوپاکستانی پانیوں سے بھاگ جانے پر ہی مجبور کیا گیا۔ در حقیقت بھارت کے پالیسی ساز اور جنرلز نے تصوراتی کام تو بہت کیا اور پھر اس خوش امیدی کا شکار بھی ہو گئے مگر اس حوالے سے لازمی اقدامات اور عسکری ڈھانچہ بنانے میں ناکام رہے۔ بھارت کا یہ خیال تو خوب ہے مگر پروفیشنل اور عملی اعتبار سے قابل عمل نہیں۔ا سوچنے پر کوئی قدغن نہیں ہوتی مگر کچھ بڑا کرنے کے لئے سسٹم بنانا ہوتا ہے جو بھارت نہیں بنا سکا ۔ حکمت عملی بناتے وقت عملی رکاوٹوں اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے خام خیالی میں مبتلا ہونے سے جیت ہمیشہ ابہام کا شکار ہو جایا کرتی ہے۔ بالی وڈ میں بھارتی فوج کے کارناموں کو فلما کر قومی میڈیا کے زور اورنیشنل جیوگرافک پر کہانیوں سے کام نہیں چلا کرتا۔ مجھے حیرت ہے کہ بھارت نے کارل وان کلاز وٹ کی ’’ آن وار‘‘ نیکولو میکائولی کی’’ آرٹ آف وار ‘‘کو فوجی لائبریوں کی زینت بنادیا اور عام آدمی کو ان کے نام تو بتا دیے مگر کبھی ان کتابوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔صرف امریکیوں کی کمینٹری اور تجربات کی دہائی دینے سے تو بھارت دو محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت حاصل کرنے سے تو رہا۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ بھارتی پالیسی ساز اور سٹرٹیجک پلانرز مغربیت پسندی کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ اپنے عظیم سٹریٹجک پالیسی سازوںچانکیہ کوٹلیہ ،جس نے موریہ سلطنت کی بنیاد رکھی تھی، کو ہی بھول گئے۔ یہاں تک کہ اپنے اس عظیم پالیسی ساز کو بنگالی ڈراموں میں جھگڑالو ، سازشی اور جوکر کے طور پر پیش کیا گیا۔ عسکری تاریخ میں ڈبل فرنٹ کی شاندار مثالیں موجود ہیں اس کا مطلب دشمنوں سے مختلف محاذوں پر ٹکروں میں مناسب جگہ اور مناسب وقت پر لڑنے کی حکمت عملی ہے ۔ قرون وسطیٰ اور جدید جنگی تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ تدبیر اور نہایت چابکدستی سے صحیح جگہ اور صحیح وقت پر حیران کن حملے کی حکمت عملی اور لاجسٹک کا جنگی فتح میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔ حضرت خالد بن ولید نے یرموک اورطارق بن زیاد نے سپین میں اس قسم کی جنگی حکمت عملی کا زبردست اور کامیابی سے استعمال کیا۔ اہلیان مغرب دو فرنٹ کی حکمت عملی کے حوالے سے ہنی بال کی 216 قبل مسیح میں دوسری پیونک جنگ میں پلاننگ اور عملی مظاہرے سے متاثر ہیں۔ ہنی بال نے رومن فوج اور اس کے اتحادیوں کو بہترین جنگی حکمت عملی سے اور تدبیر سے شکست دی تھی۔ جرمنی کا شیفلیں پلان بھی اسی طرح کا تھا مگر اس کو کبھی عملی طور پر آزمایا نہ جا سکا۔ 1967ء اور 1973ء میں اسرائیل یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ اپنی موثر حکمت عملی اور حیران کن حد تک صحیح وقت اور صحیح مقام پر حملہ کر کے جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایک محاذ سے نہایت سرعت کے ساتھ فوج کو دوسرے محاذ پر پہنچا سکتا ہے۔1973ء میں پہلے مرحلے میں اسرائیل نے مصر کے خلاف دفاعی جنگ لڑی اور شام کو شکست دینے پر توجہ مرکوز رکھی اور پھر اپنی فوج کو شام سے مصر کی جانب سرعت سے پہنچا کر مصر کو بھی شکست دی۔ بھارت اسی شیفلین پلان سے کھیل رہا ہے۔ بھارت جنرل سندرجی نے عسکری فورس کو پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے ایک محاذ سے دوسرے محاذ پر حرکت دی، بعد میں یہی عمل پارا کرم اور کولڈ سارٹ کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھا نے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ جوہری چھتری تلے پاکستان سے روایتی محدود جنگ جیت جائے۔ شاید پاکستان کے کارگل سے رضاکارانہ فوجی انخلا کے بعد بھارت اس خوش فہمی کا مزید شکار ہو گیا ہے اس ضمن میں بھارت کے پالیسی ساز اور ناقد اس کو مودی ماڈل سے پکارنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس خام خیالی کے بیج بونے والا بھارتی جنرل وی پی ملک ہے جس نے کارگل کے بعد بیان داغ دیا تھا۔ مستقبل میں بھی ان کا خیال ہے کہ بھارت ایسا کر سکتا ہے کہ اچانک حملہ کر کے محدود جنگ میں پاکستان کو شکست دے دے مگر یہ ان کی خام خیالی ہے اب پاکستان نے خود کو بہتر طور پر تیار کر لیا ہے جبکہ پاکستان دشمن کا مقابلہ کرنے کی بھر پور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بھارتی نقطہ نظر سے اس قسم کی جنگ دنیا کے بلند ترین مقام سیاچن اور کارگل میں لڑی جا سکتی ہے جہاں 1980ء کے بعد پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ معمول بن چکا ہے۔ بی جے پی نے اس ڈاکٹرائن سے بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت میں تال میل ملانے کی کوشش کی ہے۔ (جاری ہے)