دفتر خارجہ نے بھارت کی جانب سے مشروط مذاکرات کی بات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ایک قدم بڑھائے تو پاکستان چار قدم آگے آنے کو تیار ہے۔ شرائط عائد کر کے مذاکرات کی بات قبول نہیں۔ دونوں ملک گزشتہ پانچ برسوں سے کشیدہ تعلقات کا شکار ہیں۔ تعلقات میں موجود کشیدگی نے جہاں دونوں کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے وہاں پورے خطے کی خوشحالی اور سلامتی کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ بھارت میں جب سے نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں، پاکستان کے خلاف تعصب کو ایک ووٹ بینک کے طور پر مضبوط بنانے کی روش جاری ہے۔ مودی جب پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا۔ نواز شریف کے ساتھ ان کے تعلقات کا فائدہ پورے عرصہ میں ریاست پاکستان کے لیے مفید صورت میں ظاہر نہ ہو سکا، الٹا اس کا ناقابل تلافی نقصان ابھی تک اہل پاکستان بھگت رہے ہیں۔ مودی نے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان میں سارک کی سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اور خطے کے چھوٹے ممالک کو بھی اس میں شرکت سے روکا۔ حافظ سعید، مسعود اظہر، سید صلاح الدین اور دیگر شخصیات کو امریکہ، اقوام متحدہ اور یورپی اداروں سے دہشت گرد قرار دلانے کے لیے اپنی تجارتی طاقت کا استعمال کیا۔ سابق دور میں نواز شریف کو ذاتی تعلق اور دوستی کے جال میں پھنسا کر کشمیریوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیں، نواز شریف اس صورت حال میں خاموش رہے۔ پاکستان میں جولائی 2018ء میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جہاں اپنی داخلی پالیسیوں کی بات کی وہاں ہمسایہ ممالک سے تعلقات خوشگوار بنانے کا ذکر بھی کیا۔ حلف برداری تقریب میں انہوں نے بھارت میں موجود اپنے دوستوں سمیت کئی افراد کو مدعو کیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں نریندر مودی ایک نئی حکومت کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات کی بنیاد رکھ سکتے تھے مگر بھارتی حکومت نے اکثر افراد کو پاکستان آنے کی اجازت نہ دی۔ کانگرس کے رہنما اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو اور بھارتی ہائی کمشنر وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔ نوجوت سنگھ سدھو نے مختصر ملاقات میں آرمی چیف سے کرتارپور راہداری کھولنے کی فرمائش کی جس پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے رضا مندی کا اظہار کیا۔ پاکستان نے اس فیصلے کے ذریعے بتایا کہ وہ اپنے مشرقی ہمسائے کے ساتھ تعلقات میں موجود تنائو ختم کرنا چاہتا ہے۔ کرتار پور راہداری کی تقریب سنگ بنیاد کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ اس تقریب کے چند روز بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سربراہی اجلاس تھا۔ بھارت نے اعلان کیا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی کی سائیڈ لائن ملاقات ہوگی پھر ملاقات سے انکار کر دیا۔ پاکستان نے اس پر ردعمل ظاہر کیا تو مودی حکومت نے پہلے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی تیز کی اور پھر بھارتی طیارے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو گئے۔ یہ ایک کھلا چیلنج تھا جس کا اگلے روزدو بھارتی طیارے گرا کر جواب دیدیا گیا۔ پاکستان نے واضح الفاظ میں انتباہ کیا کہ وہ بھارت کی ہر صلاحیت کا جواب دینے کی استعداد رکھتا ہے تا ہم خطے کو جنگ اور کشیدگی سے بچانے کے لیے اس نے گرفتار بھارتی ہوا باز کو بھی رہا کر دیا۔ نریندر مودی اور ان کی حکومت نے ایک بار پھر مذاکرات کا موقع ضائع کیا اور اپنی شکست کو پاکستان کے خلاف جنگی جنون بھڑکانے کے لیے استعمال کر کے انتخابی کامیابی حاصل کی۔ 1947ء میں آزاد ہوتے ہی پاکستان اور بھارت تنازعات میں الجھ گئے۔ دونوں کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف خود کو طاقتور بنانے کے لیے ایٹمی ہتھیار بنا چکے ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی پاکستان چلا رہا ہے۔ اس کے خیال میں پاکستان کے خفیہ ادارے بھارت میں ممبئی حملوں جیسے منصوبے تیار کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات ساری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے کہ بی جے پی اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں نے بھارت میں آباد اقلیتوں کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ کشمیریوں کے خلاف مسلسل فوجی آپریشن کشمیریوں کو سیاسی مکالمے کی بجائے عسکریت پسندی کی طرف راغب کر رہا ہے۔ برہان وانی سے موسیٰ ذاکر تک جتنے کشمیری مجاہدین سامنے آئے وہ کشمیری ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ صرف مذاکرات سے انکار نہیں کر رہا بلکہ وہ ثقافت اور کھیلوں کے شعبے میں دونوں ملکوں کے درمیان موجود رابطوں کو بھی ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھارت کے عام انتخابات کا نتیجہ آیا ہے۔ نریندر مودی پلوامہ حملے اور پاکستانی حدود میں ایئرسٹرائیکس پر پروپیگنڈہ کر کے ایک بار پھر بھارت کے سوا ایک ارب سے زائد لوگوں کے وزیر اعظم بننے کو تیار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے جیت پر انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا۔ پاکستان سے بات نہ کرنے اور دھمکیاں دینے والے ہمسائے کے لیے یہ پیغام کافی تھا مگر غیر ضروری جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فون کرنا اور مذاکرات کی خواہش کا اظہار پاکستان کے لیے مفید ثابت نہیں ہو گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو صرف مذاکرات کے ساتھ منسلک کر کے پاکستان اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکے گا۔ اس لیے بھارتی شرائط کو مسترد کر کے اپنے مفادات کے تحفظ کا اس وقت تک دوسرا انتظام کیا جائے جب تک بھارت غیر مشروط مذاکرات پر آمادہ نہ ہو۔