وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارت کے دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے پر نریندر مودی کو مبارکبادی خط ارسال کیا گیا ہے۔ خط میں منصب سنبھالنے پر خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھردوطرفہ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خط میں کہا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور مذاکرات ہی وہ کلیہ ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو غربت‘ افلاس اور پسماندگی کی قید سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں ترقی کے لئے ایک دوسرے کا احترام اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے بھارتی ہم منصب کو لکھے خط میں چند معاملات بڑے واضح ہو کر ابھرے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ پاکستان امن کا خواہاںہے۔ دوسرا یہ کہ خطے میں ترقی و استحکام امن کے ساتھ جڑے ہیں۔ تیسرا یہ کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور چوتھا نکتہ یہ کہ ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے دونوں ممالک کا مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب باشندوں کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کی ترقی پر بھی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ یہ امر درست ہے کہ بھارت اس وقت عالمی طاقتوں کی آنکھ کا تارہ بنا ہوا ہے۔ ایک طویل عرصہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی قربت پاکستان کو بھی حاصل رہی ہے۔اس وقت بھارت امریکی نوازشات سے مستفید ہو رہا ہے مگر اس کی قومی آمدن بہت جلد امریکہ‘ اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جیب میں جانے والی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اقلیت دشمن بھارت کا چہرہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور اسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کی رپورٹس بے نقاب کرتی ہیں۔ بھارت میں ہندو توا ایک مہذب اور پرامن نظریہ کی بجائے اختلاف رائے رکھنے والوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لئے عدم برداشت کی متشدد سوچ بن کر سامنے آیا ہے۔ مودی اس سوچ کے سرپرست ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم پاکستان دشمنی پر مبنی بیانات پر چلائی۔ ان کی جماعت کے ساتھ بابری مسجد کی شہادت‘ گجرات میں مسلم کش فسادات اور جمہوریت کی جگہ فاشزم چپکے ہوئے ہیں۔ ان خصوصیات کے ساتھ نریندر مودی سے یہ توقع کرنا کہ وہ پاکستان سے مذاکرات کی بحالی پر رضا مند ہو جائیں گے‘ مشکل امر ہے۔ پاکستان بدامنی سے نجات چاہتا ہے۔ خطے میں امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ مسلح تنازعات کو ایک بار پھر بڑھاوا دے رہا ہے۔ کابل اور قندھار میں بھارتی قونصل خانے پاکستان میں جاسوسی اور تخریبی سرگرمیوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخواہ میں انضمام ہوا ہے۔ اس الحاق سے قبائلی اضلاع کی پسماندگی دور ہو گی اور مقامی آبادی کا معیار زندگی بلند ہو گا لیکن ان علاقوں میں ایک تواتر کے ساتھ دہشت گردی اور فوجی قافلوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ایرانی سرحد کے پار بھارت کے ہاتھوں کھیلنے والے گروپوں نے ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ ایران اور افغانستان کی سرزمین پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قومی سلامتی سے متعلق فرائض کی بجا آوری کرنے والی شخصیات بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے پس پردہ کون سا ملک اور کون سے عناصر ہیں۔ بالاکوٹ پرناکام بھارتی حملے کے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھارت کو اس قدر جواب دیا جتنا ضروری تھا۔ پاکستان کے پاس ایسے مواقع تھے کہ وہ بھارت کے اندر گھس کر تباہ کن جواب دیتا لیکن کشیدگی اور تنائو سے بھرے موقع پر بھی وزیر اعظم عمران خان نے دوطرفہ تنازعات بات چیت سے حل کرنے کی پیشکش کی۔ یہ الگ بات کہ نریندر مودی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ بے تکلف اور دوستانہ تصور کرتے تھے۔ اگرچہ ان کے دور میں بھی بھارت اورپاکستان کے درمیان مذاکرات کا عمل بحال نہ ہوسکا۔ پاکستان کی قیادت ان تمام مسائل اور خطرات سے آگاہ ہے جو اس کے راستے میں حائل ہیں۔ ان خطرات کے باوجود بھارت کو بار بار مذاکرات کی پیشکش ایک موثر حکمت عملی ہے۔ عالمی برادری ایسی پیشکش کی وجہ سے بھارت کے اس بیانئے کو مسترد کر رہی ہے کہ پاکستان کشمیر سمیت تمام تنازعات کو مذاکرات سے حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ وزیر اعظم عمران خان اس امر سے واقف ہیں کہ وزیر اعظم منتخب ہونے‘ کرتار پور راہداری کے افتتاح اور بھارتی طیاروں کو فضائی حدود میں گھسنے پر مارگرانے کے مواقع پر ان کی جانب سے بھارت کو بات چیت کی دعوت کچھ حلقوں کے لئے نادرست ہے‘ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ بھارت میں کانگرس کی حکومتیں کشمیر کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہیں۔اسی لئے انہوں نے چند ہفتے قبل کہا تھا کہ نریندر مودی اگر ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہو گئے تو تنازع کشمیر کا حل تلاش کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے اس بیان کو پاکستان میں ان کے مخالفین نے کسی اور انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بھارت کی عدم دلچسپی کے باوجود پاکستان کا تصادم سے گریز اور مذاکرات کی پیشکش دہرانا ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی ایک امن پسند قوم ہیں۔ دراصل یہی تصویر کا وہ دوسرا رخ ہے جو پاکستان عالمی برادری کو دکھانا چاہتا ہے کہ اسے دہشت گردی کا مرکز اور تشدد پسند کے طور پر دیکھنے کی بجائے اس کی امن دوستی اورجمہوری سوچ کی تحسین کی جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خط کے ذریعے مذاکرات کی پیشکش کر کے پاکستان کے اصولی موقف کو ایک بار پھر ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے توجہ حاصل کی ہے۔ جلد یا بدیر وزیر اعظم مودی کو یہ موقف تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔