میں نے سیل فون کے کیمرے سے تصویر بنانی چاہی تو ساتھ بیٹھے دوست نے پہلو میں کہنی سے ٹہوکا دیتے ہوئے آنکھوں کے اشارے سے منع کر دیا میں حیران ہو گیا کہ آخر یہ کون سی ایسی میٹنگ ہے کہ جس میں تصویربنانے کی اجازت بھی نہیں او ر وہ بھی کراچی پریس کلب میں ، میں نے دیکھا کہ وہاں سب کے فون جیبوں میں تھے میںنے بھی اپنا سیل فون جیب میں ڈال لیا او ر سامنے بیٹھی بزرگ شخصیت کی جانب متوجہ ہو گیا،گندمی باریش چہرہ اور سر پر ٹوپی ،یہ جماعت اسلامی ہند کے اک اہم ذمہ دار تھے جو نجی دورے پر چند روز کے لئے کراچی آئے تھے ،کراچی پریس کلب کے سینئرز میں سے کسی کو ان کی آمد کی بھنک پڑ گئی اور انہوں نے ہندوستان کے حالات سے آگاہی کے لئے انکے ساتھ ایک نشست رکھ کر پریس کلب کے چیدہ چیدہ دوستوں کو اطلاع دے دی گئی وہ مقررہ وقت پر چلے آئے یہ ان کی ہی درخواست تھی کی کہ میں جو بھی گفتگو کروں اس کی ویڈیو بنائی جائے نہ تصویر لی جائے، آج جب بھارتی آرٹ موویز کے منفرد اداکار نصیر الدین شاہ یہ کہتا ہے کہ ستر سال بعد مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ میں مسلمان ہو بھارت میں نہیں رہ سکتا تو مجھے کراچی پریس کلب کی وہی نشست یاد آگئی اوران بزرگ کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ۔ 26جنوری کو بھارت یوم جمہوریہ مناتا ہے اس روز1950ء کو بھارت میں ان کا اپنا آئین نافذہوا تھاپھر جشن تو بنتا ہے بس فرق یہ ہے کہ آج اس جشن میں نصیر الدین شاہ کے لہجے میں احتجاج کرتی بے بسی ، کراچی پریس کلب میں ایک بھارتی مسلمان کی خوف میں لپٹی احتیاط اور بھارتی بشپ کشور کمار کا ڈربھی شامل ہے،سو کروڑ انتالیس لاکھ کی آبادی والا بھارت خود کودنیا کی سب بڑی جمہورئت بھی کہتا ہے اور اس کا اظہار بڑے فخر سے کرتا ہے لیکن بھارتی جمہورئت مٹی کے لڈوؤں پر لگی چاندی ورق کے دھوکے کے سوا کچھ نہیں ،جہاں اقلیتیں اس بدترین خوف کا شکار ہیں جنہیں زبان دے کر نصیر الدین شاہ اس وقت انتہا پسند ہندو ؤں کی گالیاں کھا رہا ہے ،آج یوم جمہوریہ کے اس جشن میں رہائش کے لئے خطرناک ملکوں کی فہرست میں پانچواں نمبر لینے کی سچائی بھی شامل ہے ساتھ ہی ورلڈ پاپولیشن ریویو 2020ء کی رپورٹ میں نسل پرست ممالک میں سرفہرست ہونے کا ’’اعزاز‘‘ بھی اس جشن میں جھوم رہا ہے اکہترویں یوم جمہوریہ کے جشن میں صرف بھارتی مسلمانوں کی آہیں ہی نہیں وہاں بدترین زندگی گزارنے والے دو کروڑ چورانوے لاکھ عیسائیوں کی سسکیاں بھی شامل ہیں ،کیتھولک ہیرالڈ نے2 اکتوبر2019ء کی اشاعت میں بھارتی عیسائیوں کو خوف کے خول میں سمٹی بھارتی اقلیت قرار دیاتھا ،کیتھولیک ہیرالڈ کے مطابق بھارتی بشپ کشور کمارکہتا ہے ہمیں کہا جاتا ہے جہاں سے آئے ہو وہیں چلے جاؤ،یہ سب دیکھنے سننے کے باوجود عوام کی اکثریت خاموش رہتی ہے اورکوئی ہمارا ساتھ نہیں دیتا،بھارت میں صرف ایک سال 2018ء میں 100گرجا گھروں کو زبردستی بند کیا گیا تھا،بندگرجا گھروں کا یہ سکوت بھی بھارت کے یوم جمہوریہ کی خوشیوں میں کہیں نہ کہیں شریک ہے ۔اس وقت بھارتی بالی ووڈ سے باہر کے نسل پرست، ذات پات میں لتھڑے غیر جمہوری رویئے کے حامل ’’ہندواستھان‘‘ کی تصویر نہائت بھیانک ہے اوربھارتی ریاست اترپردیش میں تویہ کچھ زیادہ ہی کریہہ ہے جہاں مذہبی منافرت پر زندگیاں چھین لی جائیں پھانسیاں دے دی جائیں کاٹ کر پھینک دیا جائے وہاں کچھ اچھا ہو بھی کیسے سکتا ہے تیس جولائی 2019ء میں اسی ریاست کے ضلع چندولی میں پندرہ سالہ خالد کوہندو انتہا پسند لڑکے گھیر کر جے شری رام کا نعرہ لگانے کا کہتے ہیں اور خالد کے انکار پر وہ اس پر پل پڑتے ہیں بری طرح مارنے کے بعد جی ٹھنڈا نہیں ہوتا توخالد پرپٹرول چھڑک کر آگ لگا دیتے ہیں،ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ برس فروری میں 104صٖفحات کی رپورٹ جاری کی تھی جس میں گائے ذبح کرنے کے الزام میں 2015ء سے 2018 ء تک44افراد کے بہیمانہ قتل کا ذکر تھا اور ان قتل ہونے والے افراد میں 36 مسلمان تھے،ہندو مت میں گائے کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے اسے گئو ماتا کہا جاتا ہے اسکی پوجا پاٹ بھی ہوتی ہے وہاں کسی کو بھی یہ کہہ کر مشتعل کر دینا کہ اس مسلمان نے گئو کشی کی ہے بہت آسان ہے ،44افراد کے قتل کے پیچھے بھی یہی الزام تھا لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو بھارتی ساہوکار،بزنس مین لکشمی دیوی اور ڈالر دیوتا کے لئے چپکے سے گئو ماتاکو ٹکروں میں برآمدبھی کر نے سے بھی باز نہیں آتے اور اس دوڑ میں وہ کسی کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے2015ء میں امریکی محکمہ زراعت نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بھارت دنیا میں گائے کا گوشت بر آمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے اور اس نے اس دوڑ میں برازیل ،امریکہ ،یوروگوئے، یورپی یونین کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے 2015ء میں تیرہ لاکھ چھپن ہزار ٹن گائے کا گوشت برآمد کیا تھا،سال بھر پہلے اترپردیش کے کانگریسی رہنما راشد علوی نے اقلیتوں کے ایک کنونشن میں الزام لگایا تھا کہ صرف اترپردیش سے سات ہزار ٹن گائے کا گوشت باہر بھیجا گیا جس کے لئے11000گائیںذبح کی گئیں اس گوشت کی برآمد سے ڈالر دیوتا کی آمد پر چہرے پر آنے والی رونق بھی یقینی طور پر بھارت کے یوم جمہوریہ کے جشن میں شریک ہوگی! جمہورئت برداشت ضبط اور ایک دوسرے کو سننے کا نام ہے لیکن بھارت میں جمہورئت صرف کاغذ پر گھسیٹے گئے ایک لفظ کے نام سے زیادہ کچھ نہیں ،مودی سرکار کے سامنے اس وقت عدم برداشت،نسل پرستی،ذات پات کی سفاکانہ تقسیم کے چینلجز کا کیا ذکر کیا جائے وہ تو خود ہی اس ذات پات کی تقسیم کے سب سے بڑے داعی ہیں اور پاکستان کی مشکیں کس کر بھارت کی سرحدیں تبدیل کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔