کابل ایئر پورٹ پر افغان فورسز کے لئے اسلحہ اتارنے والے بھارتی طیاروں کی تصاویر افغانستان میں کسی نئی سازش کا پتہ دے رہی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق 10اور 11جولائی کو طیارے افغانستان میں موجود بھارتی سفارت کاروں کو لینے کے لئے آئے تاہم طیاروں کی آمد کا معاملہ اس وقت خدشات کا موجب بن گیا جب ان میں لدا اسلحہ افغان فورسز کے حوالے کیا گیا۔یہ اطلاع بھارت کے لئے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے والے طالبان کو یقینا ناراض کر سکتی ہے اور وہ اسے اپنے علاقوں میں جارحیت تصور کر سکتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھارت پریشان ہے۔ مودی حکومت نے افغانستان کے شہر قندھار میں اپنے قونصل خانے کی بندش کا فیصلہ کیا ہے۔بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق 50 سفارتکار اور سکیورٹی اہلکاروں کو بھارتی ایئرفورس کی ایک پرواز کے ذریعے واپس بھیجا جا چکا ہے۔بھارتی حکام کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ احتیاطی طور پر کیا ہے۔نوّے کی دہائی میں طالبان کا ہیڈ کوارٹر قندھار میں تھا اور طالبان اب ایک مرتبہ پھر قندھار کا کنٹرول سنبھالنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔اس وقت تک بھارتکا کابل میں سفارت خانہ اور مزارِ شریف میں اس کا قونصل خانہ بند نہیں ہوئے مگر بھارت کو خدشہ ہے کہ طالبان اسی طرح پیش قدمی کرتے رہے تو کابل میں سفارت خانہ کام نہیں کر سکے گا۔ چند روز قبل وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی افغان ٹی وی چینل طلوع نیوز کو انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت اور افغانستان کی ایک دوسرے کے ساتھ سرحدیں نہیں پھر بھی اس نے یہاں چار قونصل خانے کھول رکھے ہیں۔اس سے قبل اپریل 2020 میں بھارتی حکومت نے جلال آباد اور ہرات میں اپنے قونصل خانوں پر کام بند کرتے ہوئے اپنا عملہ واپس بلوا لیا تھا۔بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی کہتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں بڑھتے ہوئے سکیورٹی خدشات کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔ ہمارے لئے اپنے لوگوں کا تحفظ نہایت اہم ہے۔افغانستان پینتالیس برس سے مسلسل حالت جنگ میں ہے‘ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اقوام متحدہ میں ایک قرار داد منظور کرائی۔ اس قرار داد کے مطابق جو ریاست دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان سے تعاون نہیں کرے گی اسے دہشت گردوں کی حامی سمجھا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ نے جو بیانیہ اختیار کیا وہ خطے میں بھارتی مفادات کی تکمیل کرتا تھا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو کسی نہ کسی طرح سے دہشت گردی قرار دلا کر کشمیری حریت پسندوں اور پاکستان پر عالمی پابندیوں کا خواہاں رہا ہے۔ افغانستان میں امریکہ نے طالبان کے خلاف کارروائیاں کیں حالانکہ طالبان نے کبھی افغانستان سے باہر کوئی مسلح کارروائی نہیں کی تھی۔ وہ اپنے علاقے پر حکمران تھے اور افغان عوام کی اکثریت ان کے اقتدار کو تسلیم کرتی تھی۔ بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ٹرانسپورٹ‘ ہسپتالوں اور آبی ذخائر کی تعمیر پر کام کیا‘ ساتھ ہی درپردہ افغان میڈیا‘ حکومت اور انٹیلی جنس اداروں میں پاکستان مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی کی۔ بھارت نے پہلے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کے ساتھ مل کر پاکستان کے مفادات کو ہدف بنایا۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین 5ارب ڈالر سالانہ کی تجارت 1.5ارب ڈالر تک رہ گئی‘ افغانستان تجارت کے لئے پاکستان سے مطالبہ کرنے لگا کہ وہ بھارت کو پسندیدہ ریاست کا درجہ دے۔ افغانستان نے اپنے نوجوانوں کو تعلیم اور فوجی تربیت کے لئے بھارت بھیجنا شروع کر دیا۔ بھارت نے افغانستان میں کئی طرح کے ٹھیکے لئے۔ بھارتی خفیہ ادارے افغانستان میں موجود 4قونصل خانوں سے دن رات ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ افغانستان کے حوالے سے بھارت کا تاریخی کردار رہا ہے کہ اس نے ہر اس شخصیت سے تعلقات استوار کئے جو پاکستان مخالف تھی۔ امریکی انخلا کے بعد جو صورت حال ابھری ہے اس میں بھارت کے سامنے ناصرف ماضی کی کارستانیاں آ کھڑی ہوئی ہیں بلکہ مستقبل میں بھی اسے مشکلات کا احساس ہو رہا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے اس کے تمام ہمسایہ ممالک نے برسہا برس مل کر کام کیا ہے۔ روس‘ چین‘ پاکستان اور ایران نے ایک طرف باہمی مشاورت کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری طرف مستقبل کے افغانستان میں ممکنہ طور پر ابھرنے والی قوتوں سے رابطہ رکھا۔ اس سارے عرصے میں بھارت کی توجہ افغانستان کو دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے پر رہی۔بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے چند ہفتے قبل جب دوحہ میں طالبان سے رابطہ کیا تو طالبان نے یقین دلایا کہ وہ بھارت کے سفارتی عملے کو تحفظ دیں گے لیکن اپنی سلامتی کے خلاف خطرہ بننے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔ ممکن ہے کہ امریکہ بھارت کی اس کارروائی پر معترض نہ ہو کیونکہ بھارت نے اسلحہ افغان فورسز کے لئے بھجوایا ہے لیکن افغانستان کے تین چوتھائی علاقے پر قابض طالبان کے لئے یہ کسی طور قابل قبول نہیں ہو گا۔ اقوام متحدہ اور خود امریکہ کو بے حسی کا رویہ ترک کر کے بھارت سے باز پرس کرنی چاہیے کہ وہ طالبان کو مشتعل کر کے افغانستان میں کوئی ایسی چال چلنے کی کوشش تو نہیں کر رہا کہ دنیا طالبان کو ایک بار پھر تشدد پسند اور عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والی قوت قرار دے کر پابندیوں کا اعلان کر دے۔ بھارت افغانستان کے امن عمل کو بدامنی میں بدل کر عالمی امن کے لئے خطرات کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس سے جوابدہی ضروری ہے۔