واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) امریکہ کے موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریے میں کہا ہے چین اور بھارت کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی اگرچہ دو ملکوں کا باہمی تنازع ہے لیکن اس کے اثرات عالمی سطح پر ہونگے ،ماہرین کے مطابق بھارت کی جانب سے سرحدی علاقے میں تعمیرات چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کیلئے چیلنج ہیں۔مودی کے 66 اہم سڑکیں اور ایک فضائی اڈے کی تعمیر کے منصوبے نے چین کو غصہ دلایا ہے ۔چین کے پاکستان کیساتھ انتہائی قریبی تعلقات کے باعث بھی بھارت سے معاملات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے ۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں نیشنلسٹ عزائم رکھتی ہیں جبکہ کورونا وبا کے باعث بہت سے ممالک چین کے حامی یا مخالف گروپوں میں چلے گئے ہیں۔کسی معاملے میں چین کی شمولیت کا مطلب ہے کہ امریکہ بھی اس میں ملوث ہوگا۔چین اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، انکی مجموعی آبادی 2.7ارب ہے جو دنیا کی ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے ، دونوں کی 2 ہزار میل سے زیادہ سرحدیں ملتی ہیں جبکہ دونوں نے ہی تیز تر معاشی ترقی کے اہداف حاصل کئے ہیں۔دونوں ملکوں میں قوم پرست تحریکیں عروج پر ہیں اور دونوں خارجہ پالیسی میں ’’وولف واریئر‘‘ یعنی جارحانہ انداز دکھانے میں مصروف ہیں۔چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے صدر ٹرمپ کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہاایسا لگتا ہے کہ چین بھارت تنازع سے امریکہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جبکہ انتباہ بھی کیا کہ اگر بھارت نے سرحدی کشیدگی کو بڑھاوا دیا تو اسے 1962ء سے بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑیگا۔تجزیہ کار سُمت گنگولی اور منجیت پراڈیسائی نے فارن پالیسی جریدے میں لکھا کہ عملیت پسندی کا مظاہرہ دیکھا جا چکا ہے ، چین کی جی ڈی پی تقریباً 14 ٹریلین ڈالر جبکہ بھارت کی صرف 2.7ٹریلین ڈالر ہے ۔ بھارت گزشتہ تین دہائیوں سے ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے لیکن چین کے مقابلے میں اسکی پاور بہت کم ہوئی ہے ۔بھارت کے کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے موجودہ کشیدگی بھی پرامن طریقے سے ختم ہو جائیگی، تاہم فیصلہ کن حل کی عدم موجودگی سے تنازع کی اصل جڑ پر بات نہیں ہو سکے گی۔