26نومبر 2020ء سے 26 نومبر2021 تک بھارتی کسانوںکی تحریک کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے ۔ اس ایک سال سے برابرمودی حکومت کان، آنکھ بند کر کے کسانوںپر ظلم ڈھا تی چلی آرہی ہے اوراس دوران750 کسان اس تحریک پر قربان ہوئے۔ بھارتی کسانوں پرنافذ کئے جانے والے زرعی قوانین کا مقصد بھارتی کسانوں کی کھیتی ، کسانی کو کارپوریٹ کے ہاتھوں میں دینا تھا۔ لیکن کسانوں نے اسے مستردکرتے ہوئے کی تحریک شروع کی ۔ 2020ء میں جب بھارت کورونا لاک ڈائون کا سامنا کر رہا تھا، لاکھوں مزدور سروں پر بوجھ اٹھائے، معصوم بچوں کا ہاتھ تھامے، پیدل اپنے گائوں اور دیہات کو لوٹ رہے تھے، اسی دوران 5 جون کو مودی حکومت نے تین زرعی قوانین کو منظوری دیدی جن کے سامنے آنے پر کسانوں نے احتجاج شروع کیا، لیکن چونکہ ابھی اس پر پارلیمنٹ کی مہر باقی تھی، تو کسانوں کے احتجاج میں شدت نہیں تھی۔ بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں نے ان قوانین پر تنقید کی اور انھیں بحران سے نبرد آزما زرعی شعبہ اور کسانوں و زرعی مزدوروں کے لیے موت کا وارنٹ قرار دیا لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ 14 ستمبر 2020ء کومودی حکومت پارلیمنٹ میں آرڈیننس لیکر آ گئی اس آرڈیننس کو لوک سبھا نے17 ستمبر 2020ء کو منظوری دیدی لیکن ان قوانین کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی منظوری بھی ضروری تھی، جہاں تعداد کے معاملے میں حکومت کمزور تھی۔لوک سبھا سے پاس ہونے کے تین دن بعد 20 ستمبر کو اس آرڈیننس کو راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی لیکن مودی حکومت کسی بھی قیمت پر اسے پاس کرانے پر آمادہ تھی۔مودی حکومت کی منشا دیکھ کر راجیہ سبھا میں چیئرمین کی کرسی پر بیٹھے سابق صحافی اور نائب چیئرمین ہریونش نارائن سنگھ نے کسی کی نہیں سنی۔ انھوں نے اپوزیشن کی زبردست مخالفت اور اعتراض کے باوجود ان بلوں کو صوتی ووٹوں سے پاس ہونا قرار دیدیا۔ پہلے سے ہی ان قوانین کی مخالفت کر رہے کسان اس واقعہ سے مشتعل ہو گئے۔ انھوں نے 24 ستمبر 2020ء کو پنجاب میں تین دن کیلئے ’’ریل روکو تحریک‘‘ کا اعلان کر دیا۔ اس کے اگلے ہی دن یعنی 25 ستمبر کو آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈنیشن کمیٹی (AIKSCC) نے بھارت بھر کے کسانوں سے ان قوانین کی مخالفت کا عزم ظاہر کیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں کسان ان قوانین کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ کسانوں کی بڑھتی ناراضگی اور مودی حکومت کے ضدی رویہ کو دیکھتے ہوئے پنجاب کے سکھوں کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی شرومنی اکالی دل کو اپنی سیاسی زمین کھسکتی نظر آنے لگی۔ خفا کسانوں نے 25 نومبر 2020ء کو ’’دہلی چلو‘‘ کا نعرہ لگا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کسان ٹریکٹر ٹرالیوں، پیدل، اور دیگر گاڑیوں سے دہلی کی طرف کوچ کر گئے۔ لیکن کووڈ ضابطوں کا حوالہ دے کر دہلی پولیس نے انھیں دہلی آنے کی اجازت نہیں دی۔ اجازت نہ ہونے کے باوجود پنجاب اور ہریانہ کے کسان ہریانہ-دہلی سرحد پہنچنے لگے تھے۔ اِدھر مغربی اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے کسان بھی یو پی دہلی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کسان بھی ہریانہ دہلی کے دوسرے بارڈر کے قریب آ چکے تھے۔کسانوں کے جتھوں اورایک بہت بڑے ہجوم کودیکھ کر مودی کے ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے اور دہلی پہنچنے سے روکنے کیلئے اس نے کسانوں پر ظلم برپا کرنے کیلئے ہریانہ کی بی جے پی حکومت کو کھلی چھوٹ دیدی۔26 نومبر کا وہ دن، جب کھلے علاقوں میں سردی بڑھ چکی تھی، ہریانہ حکومت نے انبالہ کے نزدیک کسانوں پر ظلم کا آغاز کیا لیکن کسان ہمت نہیں ہارے۔ دہلی پولیس نے سرحدوں پر پہرا بٹھا دیا۔ مرکزی حکومت کی طرف سے واضح حکم تھا کہ کسی قیمت پر ان کسانوں کو دہلی میں داخل نہ ہونے دیا جائے لیکن کسان بھی پرعزم تھے، انھوں نے دہلی کی دہلیزوں پر ڈیرا ڈال دیا۔ نارتھ بلاک میں ہنگامہ مچ گیا۔ کسانوں پر ظلم کی تصویریں اور ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے لگیں۔ بزرگ کسانوں پر پولیس تشدد کی خوفناک تصویریں دیکھ کر پورابھارت ششدراور حیران رہ گیا۔ کسان ہریانہ سرحد کے سنگھو بارڈر پر ٹینٹ لگا چکے تھے۔ کسانوں کے کھانے پینے کیلئے لنگر شروع ہو گیا تھا۔ لیکن یہ عوامی لنگر تھے جس میں ہر بھوکے کو کھانا کھلایا جا رہا تھا۔جسے دیکھ کر دہلی کی اقتدار کے ایوانوں میں بے چینی بڑھنے لگی تھی۔ اسی دوران کسانوں نے بھارت کے یوم جمہوریہ یعنی 26 جنوری2021 ء کو انڈیا گیٹ اور لال قلعہ تک ٹریکٹر مارچ نکالنے کا بھی اعلان کیا۔ لیکن دہلی پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی اور کسان پولیس کے ذریعہ مقرر کردہ راستے پر دہلی کی سرحدوں سے باہر باہر مارچ نکالنے پر راضی ہو گئے لیکن کسانوں کے ہجوم جب مارچ نکالنے کو تیار ہوئے تو کچھ شرارتی عناصر نے انھیں قصداً دہلی کی سرحدوں میں بھیج دیا۔ تین بارڈر سے کسانوں کے ٹریکٹر ٹرالی دہلی کی طرف کوچ کر گئے لیکن دہلی پولیس نے ان کسانوں کو آئی ٹی او چوراہے پر روک لیا۔ حالانکہ کسان صرف لال قلعہ تک جانا چاہتے تھے، لیکن انھیں اس کی اجازت نہیں ملی۔ کسانوں کو روکنے کیلئے ایک بار پھر آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے۔ اسی ہنگامہ میں بے قابو ہوئے ٹریکٹر سے گر کر ایک کسان کی موت ہو گئی۔ اُدھرکسانوں کا ایک جتھہ دہلی کے لال قلعہ پہنچ گیا اور وہاں (خالصتان ) کاجھنڈا لہرا دیا۔ بہرکیف!2022ء کے شروع میں ہی اتر پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ایسے میں نریندر مودی نے محض ووٹ بٹورنے کیلئے 19 نومبر 2021 ء کو ان تینوں قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر دیا، جس پر مودی کی کابینہ نے 25 نومبر2021 ء کو مہر بھی لگا دی۔لیکن اس سب کے باوجودبھارتی کسان ہنوز تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی واپسی کے علاوہ(MSP) یعنی فصلوں کی کم از کم قیمت کی گارنٹی کے لیے حکومت قانون بنائے۔