یہ زبان تو اقوام متحدہ کی لگتی ہی نہیں، یہ اچانک کیا ہو گیا، محوِ حیرت ہوں کہ جس ایوان میں کشمیر کا ذکر زبان پر لانا ناممکن سا ہو گیا تھا اس عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر سے 14جون 2018ء کو پچاس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری ہوئی ہے۔ جس کا عنوان ہے "Report on the situation of human Rights in Kashmir"یہ رپورٹ جون 2016ء سے لے کر اپریل 2018ء تک کی ہے۔ 8جولائی 2016ء کو برہان الدین وانی کی شہادت سے لے کر تازہ ترین پرتشدد واقعات تک یوں تو یہ رپورٹ ایک طویل داستان بیان کرتی ہے لیکن 2018ء میں بڑھتی ہوئی شہادتوں کو ایک علیحدہ عنوان دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے ساتویں باب میں پاکستانی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حالات کا ذکر بھی داستان میں رنگ بھرنے اور رپورٹ کو اپنی دانست میں بیلنس بنانے کے لیے کیا گیا ہے لیکن پوری رپورٹ بھارتی سکیورٹی فورسز کے تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات سے بھری ہوئی ہے لیکن وہ جسے کہتے ہیں کہ مقطع ’’میں آنے والی ’’سخن گسترانہ بات‘‘ وہ یہ ہے کہ رپورٹ کی سفارشات کی آخری دو لائنیں ایک جیسی ہیں۔ یعنی ایک ہی سفارش بھارت سے بھی کی گئی ہے اور وہی سفارش پاکستان سے بھی کی گئی ہے لیکن سفارش چونکا دینے والی ہے۔ "Fully respect the Right of self determination of the people of Azad Kashmir as protected under international law" ’’عالمی قوانین کے مطابق کشمیریوں کو جو حق خود ارادیت حاصل ہے اس کا احترام کیا جائے‘‘ ان دو سالوں میں کشمیر میں ایسا کیا بیت گیا کہ عالمی سطح پر الارم بجنے لگے ہیں۔ یہ خطرے کا الارم صرف کشمیر تک اپنی گونج نہیں رکھتا، بلکہ آسام، بنگلہ دیش سے لے کر افغانستان کے دریائے ایمو تک گزشتہ دو سال سے ایک نیا منظر نامہ تخلیق کر رہا ہے۔ برہان وانی کے نعروں کی گونج وطنیت سے بلند ہو کر خلافت تک جا پہنچی تھی اور اس کے بعد اس کے تمام ساتھی بھی اس بات کا اعلان کرنے لگے کہ ہم جان کشمیر وطن کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے لیے اور اس کے نظام کے نفاذ کے لیے دیں گے۔ برہان وانی کی شہادت سے پہلے اس کے والد کے انٹرویو نے یہ بات اس قدر واضح اور عیاں کر دی تھی کہ اب کشمیری نوجوان زمین کی جنگ نہیں لڑے گا بلکہ نظام کی جنگ لڑے گا۔ جب اسے ٹیلی ویژن اینکر نے بیٹے کی ممکنہ موت کا خوف دلا کر پوچھا کہ آپ کیسا تصور کرتے ہیں تو اس بوڑھے شخص نے پراعتماد لہجے میں کہا تھا کہ میرا دین مجھے سکھاتا ہے کہ پہلے اللہ پھر بیٹا، پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بیٹا۔ وہ جو دو صدیوں سے وطن پر قربان ہونے کے ترانے لکھتے چلے آ رہے تھے، ان کے لیے یہ جواب اجنبی نہیں تھا لیکن حیران کن ضرور تھا۔ ان قومی ریاستوں کی طاقت نے تو اس اسلامی پرچم کو دفن کر کے زمین کا جھنڈا بلند کیا تھا۔ انہیں اب یہ احساس ہے کہ مراکش سے لے کر برونائی تک مسلمان صرف اللہ کے لیے جان دینے کو تیار ہے، سرحدوں کی حفاظت ان خطوں میں اب صرف ملکی افواج اور عالمی برادری کی ذمہ داری رہ گئی ہے۔ برہان وانی سے ذاکر موسیٰ تک آتے آتے بہت سے سوالات تھے جو ستر سال سے کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنمائوں کے سامنے ان نوجوانوں نے رکھے۔ جن میں پہلا سوال یہی تھا کہ تم جس پاکستان سے الحاق کی بات کرتے ہو۔ وہاں تو خود اسلامی قوانین نافذ نہیں ہیں۔ ان کا میڈیا تو سیکولرازم اور لبرل ازم کے راگ الاپتے نہیں تھکتا اور ریاست بھی صرف نام کی اسلامی ہے۔ ایسے ملک کے لیے جان دینے کے بعد شہادت کی عظمت کی کون ضمانت دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری وادی میں جہاں پاکستان کے جھنڈے بلند ہوئے وہاں صرف اور صرف ایک نعرے کی گونج سنائی دی گئی، ’’پاکستان سے رشتہ کیا: لاالہ الااللہ‘‘ لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ دنیا بھر کی قوتوں کو خوفزدہ کیا وہ کلمۂ طیبہ والے کالے جھنڈے تھے جو ہر جنازے میں برآمد ہونے لگے اور ہر جلوس میں نظر آنے لگے۔ دوسری جانب کشمیر میں لڑنے والے کشمیری نوجوانوں نے بھارت کے تئیس کروڑ مظلوم مسلمانوں سے اس جہاد میں حصہ لینے کے لیے اپیل کر دی۔ ان کا نعرہ تھا کہ اگر تم پورے بھارت میں ہر شہر میں اس ہندو راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہو گے تو بھارت کشمیر میں سات لاکھ فوج نہیں رکھ سکے گا۔ اس کی حالت اس اژدھے کی طرح ہو جائے گی جو آسام سے کشمیر تک ہزاروں میل پھیلا ہو گا اور جس کو بیچ میں سے جب چاہے کاٹا جا سکتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ تصور ہی نیند اڑانے والا تھا، اسی لیے تو پورے ملک میں ایک خوفزدہ گفتگو نے جنم لے لیا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی آئی بی کے 2015ء سے 2017ء تک سربراہ رہنے والے دانشور شرما نے کہا کہ اگر کشمیر کے نوجوان کو انتہا پسندی سے نہ روکا گیا تو پورا بھارت ایک دن ’’شام‘‘ بن جائے گا۔ اس شخص کو کشمیری قیادت سے مذاکرات کے لیے بھی منتخب کیا گیا لیکن اس کے لیے سوال کھڑے ہو گئے کہ کیا وہ حریت قیادت سے مذاکرات کرنے کے بعد یہ یقین کر سکتا ہے کہ کشمیری نوجوانوں میں جو نئی انتہا پسندی کی لہر جاگی ہے، وہ ختم ہو جائے گی، شرما نے کہا کہ وہ اس خفیہ ایجنسی کے ’’اسلامک ٹیررسٹ ڈیسک‘‘ پر کام کر چکا ہے۔ اسے بخوبی علم ہے کہ کیسے 2015ء میں کیرالہ، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں اسلامی ریاست کی بغل بچہ تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ یہ وہی شرما ہے جس نے 1992ء میں اس بات پر کام شروع کیا تھا کہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ نرمی اور گفتگو سے معاملہ طے کرنا چاہیے۔ ورنہ معاملات بہت خراب ہو سکتے ہیں۔ اسی نے اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احسان ڈار کو حزب المجاہدین سے توڑکر 2017میں اسے آسام بھیجا تا کہ وہ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام سے امن کے لیے مذاکرات کرے۔ ایسے شخص کے نزدیک اس وقت کشمیری نوجوانوں نے جس طرح کشمیر کی حدود سے باہر سوچنا شروع کر دیا ہے اور ’’خلافت‘‘ کے قیام کا نعرہ بلند کیا ہے۔ یہ بھارت کی موجودہ ہندو مسلمان کشمکش، بھارتیہ جنتا پارٹی، وشواہندو پریشد اور سنگھ پریوار جیسی شدت پسند تنظیموں کی موجودگی میں آگ لگا سکتا ہے۔ اسی مشن کو لے کر تو ہندوئوں کا بظاہر امن پرچارک روی شنکر نگر نگر گھوم رہا ہے۔ اپنی مشہور تنظیم ’’آرٹ آف لیونگ‘‘ جس کے دفاتر اس نے پاکستان میں بھی کھولے تھے اور یہاں سے نوجوانوں کو بھارت یاترا کے لیے بلایا تھا۔ اس کے لوگ بھارت میں ہندو مسلم دونوں کو یہ خوف دلا رہے ہیں کہ اگر تم نے بابری مسجد کے مسئلہ کو حل نہ کیا تو بھارت ایک اور ’’شام‘‘ بن جائے گا۔ ’’شام‘‘ بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ تمام لوازمات تو موجود ہیں۔ تئیس کروڑ مسلمان شودروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ کشمیر کا گھر گھر جوالا مکھی بن چکا ہے۔ کوئی بھی شخص جس کے بھائی، بیٹے یا باپ کو گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں انتہا پسندوں نے مارا ہو گا جذبہ انتقام میں ڈوبا ٹرک پر بیٹھ کر بھی کشمیر پہنچ سکتا ہے۔ خوف یہ ہے کہ کشمیر میں لڑنے کے لیے بھارت کے تئیس کروڑ مسلمانوں میں سے اگر دس ہزار بھی نکل کھڑے ہوئے تو نہ انہیں کوئی سرحد عبور کرنا ہے اور نہ اس الزام میں گرفتار ہونے کا خوف کہ یہ پاکستان سے آئے ہیں۔ صرف چند دن پہلے عورتوں کے ایک بڑے جلوس نے کلمۂ طیبہ والے کالے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ یہ جھنڈے پورے بھارت کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ صرف بھارت نہیں اس عالمی برادری کو بھی جو یہ سمجھتی ہے کہ سرحدیں مقدس ہیں۔ زمین محترم ہے اور قوم بالاتر۔ اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ خطرہ مزید بڑھے کشمیر کی نئی سرحدیں بنا دی جائیں۔ ایسی سرحدیں جو وادی کے مسلمانوں کو مطمئن کر سکیں۔ ورنہ یہ زبان اقوام متحدہ کی ہے اور نہ پورٹ کا لہجہ، بھارت اور پاکستان کی ریاستوں کو اور کیا چاہیے۔